اسلحے کی برآمدات معطل مگر سعودی فوجيوں کی تربيت جاری
5 نومبر 2018
صحافی جمال خاشقجی کی استنبول ميں سعودی قونصل خانے ميں ہلاکت کے سبب پيدا ہونے والے سفارتی بحران کے باوجود جرمن فوج کی جانب سے سعودی فوجيوں کو تربيت فراہم کيے جانے کا متنازعہ عمل اب بھی جاری ہے۔
اشتہار
جرمن اخبار ’ويلٹ ام زونٹاگ‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق ہيمبرگ ميں جرمن فوج کی ليڈرشپ اکيڈمی ميں اس وقت سات سعودی فوجی افسران زير تربيت ہيں۔ يہ فوجی افسر اس وقت جرمن زبان سيکھ رہے ہيں تاکہ ليڈرشپ اکيڈمی ميں طويل ٹريننگ حاصل کر سکيں۔ يہ تربیت آئندہ برس شروع ہو گی۔ جرمن زبان سيکھنا اس ٹريننگ کے ليے لازمی ہے۔
’ويلٹ ام زونٹاگ‘ کی جانب سے پوچھے گئے ايک سوال کے جواب ميں جرمن وزارت دفاع کے ايک ترجمان کا کہنا تھا کہ فوجيوں کی تربيت منصوبے کے تحت آگے بڑھے گی بشرطيہ کہ سياسی سطح پر اس فيصلے ميں کوئی تبديلی نہ آئے۔
ان سعودی فوجی افسران کی تربيت سن 2016 ميں طے شدہ ايک پروگرام کے تحت جاری ہے۔ اس پروگرام کے تحت سعودی عرب کے چند فوجيوں کو ہر سال جرمن عسکری يونيورسٹيوں ميں باقاعدہ تربيت فراہم کی جاتی ہے اور اس کے اخراجات رياض حکومت ادا کرتی ہے۔
جرمنی اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات ترک شہر استنبول ميں سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کے بعد سے کشيدہ ہيں۔ خاشقجی اکتوبر کے اوائل ميں قونصل خانے سے لاپتہ ہو گئے تھے تاہم بعد ازاں يہ تسليم کر ليا گيا کہ انہيں قونصل خانے ميں قتل کر ديا گيا تھا۔
کئی خلقوں ميں يہ الزامات عائد کيے جا رہے ہيں کہ رياض حکومت کے ناقد اور امريکی ’نيو يارک ٹائمز‘ کے ليے لکھنے والے خاشقی کے قتل ميں رياستی عناصر ملوث تھے۔ تاہم فی الحال اس کے کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہيں آئے ہيں۔ اسی سبب جرمنی سميت کئی ديگر ملکوں نے سعودی حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔ برلن حکومت نے سعودی عرب کو اسلحے کی برآمدات بھی معطل کر رکھی ہيں۔ يمن ميں سعودی عرب کی متنازعہ جنگ کے باوجود اس ملک کو جرمن اسلحے کی برآمدات ويسے ہی کافی تنقيد کی شکار رہی ہيں۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔