1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلحے کی بڑھتی ہوئی برآمدات کے باعث انگیلا میرکل پر تنقید

24 دسمبر 2012

جرمنی میں سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کے چانسلر کے عہدے کے لیے امیدوار پیئر اشٹائن بروک نے اسلحے کی جرمن برآمدات میں بہت زیادہ اضافے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے چانسلر انگیلا میرکل پر سخت تنقید کی ہے۔

تصویر: dapd

جرمنی میں آئندہ وفاقی پارلیمانی انتخابات اگلے برس ہوں گے اور ان میں قدامت پسندوں کی یونین جماعتوں کی امیدوار موجودہ چانسلر انگیلا میرکل ہوں گی۔ میرکل کے انتخابی حریف سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے نامزد کردہ امیدواراور سابق وفاقی وزیر خزانہ پیئر اشٹائن بروک ہوں گے۔

ایس پی ڈی اشٹائن بروک کو چانسلر کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار نامزد کر چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ایس پی ڈی کے چانسلر کے عہدے کے لیے امیدوار پیئر اشٹائن بروک کا کہنا ہے کہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ انگیلا میرکل نے اپنے دور حکومت میں ہتھیاروں کی جرمن برآمدات کو اتنا پھلنے پھولنے دیا۔ ان کے مطابق 2013ء کے عام الیکشن کے نتیجے میں اگر موجودہ سینٹر رائٹ حکومت کے مقابلے میں سینٹر لیفٹ اپوزیشن اقتدار میں آ گئی تو ہتھیاروں کی برآمدات میں اضافے کا یہ رجحان لازمی طور پر روک دیا جائے گا۔

جرمنی میں وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ کے لیے الیکشن اگلے برس ستمبر میں ہوں گے، جن کے لیے SPD اشٹائن بروک کو میرکل کے مقابلے میں چانسلر کے عہدے کے لیے امیدوار نامزد کر چکی ہے۔ پیئر اشٹائن بروک کے بقول اس بات کو ایک اسکینڈل ہی کہا جا سکتا ہے کہ انگیلا میرکل کی قیادت میں جرمنی دنیا بھر میں ہتھیار برآمد کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔

سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان اشٹائن بروک نے یہ بات اپنے ایک حالیہ اخباری انٹرویو میں کہی۔ ان کی طرف سے اس تنقید کی وجہ یہ ہے کہ جرمنی میں ماضی کے نازی دور کے سبب اسلحے کی برآمد ہمیشہ ہی ایک حساس موضوع رہی ہے۔ اس حساسیت کے پس منظر میں اسلحے کی صنعت کے Krupp جیسے وہ بڑے بڑے ادارے بھی ہیں جنہوں نے 19 ویں اور 20 ویں صدی کی جنگوں میں اہم کردار ادا کیا اور کئی جنگوں میں دونوں فریقین کو ہتھیار برآمد کرتے رہے۔

جرمنی ہر سال اپنے ’لیوپارڈ‘ طرز کے جنگی ٹینک بھی بڑی تعداد میں برآمد کرتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی جرمنی پر مشتمل وفاقی جمہوریہ جرمنی کی قریب سبھی حکومتوں اور پھر جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد بھی زیادہ تر وفاقی حکومتوں نے ہتھیاروں کی برآمد پر سخت پابندیاں برقرار رکھیں۔ یہ پابندیاں خاص طور پر ایسے علاقوں میں اسلحے کی جرمن برآمدات پر لگائی جاتی تھیں، جہاں مسلح تنازعات پائے جاتے تھے یا جہاں انسانی حقوق کا احترام نہیں کیا جاتا تھا۔

پیئر اشٹائن بروک کے مطابق یہ بات بہت خطرناک ہے کہ جرمنی دنیا میں ہتھیاروں کا تیسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک بن گیا ہے۔ ایس پی ڈی کے اس 65 سالہ سیاستدان نے کہا کہ ان کی جماعت آئندہ الیکشن کے بعد ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے ساتھ مل کر نئی وفاقی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ آج جرمنی مبینہ طور پر ان علاقوں کو بھی ہتھیار برآمد کر رہا ہے جہاں مسلح تنازعات پائے جاتے ہیں یا جہاں انسانی حقوق کا تسلی بخش احترام نہیں کیا جاتا۔

سن 2001 میں جرمنی پوری دنیا میں امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے بعد اسلحہ برآمد کرنے والا چھٹا سب سے بڑا ملک تھا۔ تب ان برآمدات کی مالیت 925 ملین ڈالر رہی تھی۔ اس کے برعکس سٹاک ہولم میں قائم بین الاقوامی ادارے SIPRI کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2010ء میں جرمنی برطانیہ، فرانس اور اٹلی کو پیچھے چھوڑ چکا تھا۔ تب جرمنی امریکا اور روس کے بعد اس عالمی فہرست میں تیسرے نمبر پر تھا اور اس نے دو ہزار 476 ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار برآمد کیے تھے۔

(ij / mm (Reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں