اسلحے کے تاجروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں
12 مارچ 2018اسلحہ کے کاروبار میں آج کل دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ امن پر تحقیق کرنے والے سویڈش ادارے سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 2008ء سے 2012ء کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ اسلحہ بارود درآمد و برآمد کیا گیا۔ سپری کی اس تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس میں ہر تیسرا ہتھیار بھارت، سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات نے خریدا۔ اور یہی وہ ریاستیں ہیں، جن کی اسلحے کی درآمدات دو گنا بڑھی ہیں۔
اسلحہ کی فروخت میں امریکا پہلے نمبر پر، روس دوسرے، فرانس تیسرے، جرمنی چوتھے اور چین پانچویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں عالمی منڈی میں فروخت کیے جانے والے اسلحے میں ان پانچوں ممالک کا حصہ 74 فیصد بنتا ہے۔ عالمی سطح پر اسلحے کی فروخت میں امریکا کا حصہ 34 فیصد بنتا ہے۔ امریکا کل 98 ممالک کو اسلحہ و بارود برآمد کرتا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران روس کی اسلحے کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی تاہم اس کے باوجود عالمی منڈی میں فروخت کیے جانے والے روسی اسلحے کا تناسب تقریباً 22 فیصد ہے۔
’اسلحے کی فروخت میں کمی، لیکن کاروبار میں اضافہ‘ مگر کیسے؟
جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں معمولی سے کمی، سپری
ہتھیاروں کی عالمی تجارت میں سب سے آگے امریکا
جرمنی کی ہتھیاروں کی برآمدات میں اس عرصے کے دوران چودہ فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ سپری کے مطابق تاہم سیاسی سطح پر شدید بحث و مباحثے کے باوجود مشرق وسطی کے خطے میں جرمنی کی اسلحے کی تجارت میں ان پانچ برسوں میں دوران دو گنا کا اضافہ ہوا ہے۔
سپری کے مطابق اس طرح ایشیا اور مشرق وسطی کے خطوں میں اسلحے کی ترسیل بڑھی ہے۔ اسلحے کی خرید یا درآمدات کی بات کی جائے تو بارہ فیصد کے ساتھ بھارت پہلے نمبر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان اور چین کےعلاوہ دیگر حریف ممالک کی وجہ سے بھارت میں ایسے اسلحے کی مانگ بڑھ رہی ہے، جو وہ خود نہیں بنا سکتا۔ اسلحہ درآمد کرنے والے ممالک میں بھارت کے بعد سعودی عرب، پھر مصر، متحدہ عرب امارات اور آخر میں چین کا نام آتا ہے۔
چین نے ہتھیاروں کی اپنی درآمدت کو کم کرتے ہوئے خود ہی اسلحہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ چین سب سے زیادہ اسلحہ پاکستان، الجزائر اور بنگلہ دیش کو فروخت کرتا ہے۔