پاکستانی شہر کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ اسلم بلوچ اچھو کو کس نے مارا؟ ابھی تک اس بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔ وہ اپنے پانچ ساتھیوں سمیت افغانستان میں ہلاک ہوا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستانی حکام نے بھی اسلم بلوچ عرف اچھو کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔ کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر حملے کا ایک اہم مبینہ ماسٹر مائنڈ اچھو افغانستان میں ہوئے ایک بم حملے میں ہلاک ہوا۔
بلوچ لبریشن آرمی کے ایک ترجمان نے بدھ کے دن ایک بیان میں کہا تھا کہ اسلم بلوچ اپنے پانچ ساتھیوں سمیت ہلاک ہوا۔ اس بیان میں اس مقام کا کو تذکرہ نہیں کیا گیا، جہاں یہ حملہ ہوا۔
دوسری طرف پاکستانی میڈیا نے کہا ہے کہ یہ حملہ قندھار کے ایک پوش علاقے اینو مینا میں واقع ایک گھر میں کیا گیا، جہاں بلوچ علیحدگی پسند ایک ملاقات میں مصروف تھے۔
ایک افغان اہلکار کے مطابق یہ ایک خود کش حملہ تھا، جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر چھ افراد مارے گئے۔ کسی گروہ نے ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ اسلام آباد حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ افغانستان نے بلوچ جنگجوؤں کو محفوظ ٹھکانے میسر کر رکھے ہیں۔ کابل حکومت البتہ ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ اسی طرح حکومت پاکستان ہمسایہ ملک بھارت پر بھی الزامات لگاتی ہے کہ وہ بلوچ جنگجوؤں کی مدد کر رہا ہے لیکن نئی دہلی حکومت ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتی ہے۔
پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسند قدرتی وسائل سے مالا صوبے بلوچستان میں چین کے تعاون سے جاری سی پیک منصوبے کے بھی خلاف ہیں۔ اس لیے وہ بلوچستان میں ماضی میں بھی حملے کرتے رہے ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ کئی عشروں سے شورش جاری ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے صوبے کے قدرتی وسائل کا استحصال کیا جا رہا ہے۔
کچھ ہفتے قبل کراچی میں چینی قونصل خانے پر ہوئے حملے کو ایک ہائی پروفائل کارروائی قرار دیا گیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری بھی بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔ اس حملے کے نتیجے میں چار افراد مارے گئے تھے جبکہ سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی کے باعث حملہ کرنے والے تینوں جنگجو ہلاک کر دیے گئے تھے۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔