ہنیہ کی نماز جنازہ تہران میں اور تدفین دوحہ میں ہو گی، حماس
31 جولائی 2024فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کی تدفین جمعرات کے روز قطری دارالحکومت دوحہ میں کی جائے گی۔ ہنیہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب ایرانی دارالحکومت تہران میں اپنی قیام گاہ پر ہونے والے ایک حملے میں مارے گئے تھے۔
حماس کی جانب سے آج بدھ کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ جمعرات کو تہران میں ادا کی جائے گی اور پھر ان کی میت کو تدفین کے لیے قطری دارالحکومت دوحہ پہنچا دیا جائے گا۔
دوسری جانب ہنیہ کی ہلاکت پر علاقائی اور بین الاقوامی رد عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کی ہلاکت کے بعد ایران، حماس اور خطے میں ان کی دیگر اتحادی عسکریت پسند تنظیموں کی طرف سے اسرائیل سے بدلہ لینے کے اعلانات کے بعد خطے میں جاری کشیدگی میں واضح اضافہ ہو گیا ہے۔
ایران، پاکستان، ترکی، شام، عراق، قطر اور روس کی طرف سے مذمت
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہعلی خامنہ ای نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینا ''تہران کا فرض‘‘ ہے کیونکہ ان کے بقول ''یہ قتل ایرانی دارالحکومت میں‘‘ کیا گیا ہے۔
بدھ کے روز اپنے ردعمل میں ایرانی سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے اپنے لیے ''سخت سزا‘‘ کی بنیاد فراہم کر دی ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے بھی ہنیہ کی ہلاکت پر اسرائیل کو سخت رد عمل کی دھمکی دی ہے۔ بدھ کے روز جاری کردہ ایک بیان میں پاسداران انقلاب کا کہنا تھا، ''ہنیہ کے قتل کا سخت اور دردناک جواب دیا جائے گا۔‘‘ ساتھ ہی اس بیان میں مزید کہا گیا، ''یہ جرم بین االاقوامی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
پاکستان نے اسماعیل ہنیہ کے ایران میں قتل کو ایک ''غیر ذمہ دارانہ عمل‘‘ قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اسلام آباد میں وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں ہنیہ کی ہلاکت کو ''دہشت گردی‘‘ کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔ بیان میں مزید کہاگیا، ''پاکستان خطے میں بڑھتی ہوئی اسرائیلی مہم جوئی کو سنجیدگی سے دیکھتا ہے۔ اس کی تازہ ترین کارروائیاں پہلے سے ہی غیر مستحکم خطے میں جاری کشیدگی میں خطرناک اضافے اور امن کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔‘‘
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے حماس کے سیاسی سربراہ کے 'سازش کے نتیجے میں قتل‘ کی مذمت کی ہے۔ ترک صدر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ردعمل میں لکھا کہ اس قتل سے فلسطینیوں کا عزم نہیں ٹوٹے گا۔ ان کے الفاظ میں، ''یہ قتل ایک گھناؤنی حرکت ہے، جس کا مقصد فلسطینی مقصد، غزہ کی عظیم مزاحمت اور ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں کی جائز جدوجہد کو متاثر کرنا، فلسطینیوں کی قوت ارادی کو توڑنا اور انہیں ڈرانا ہے۔‘‘
شامی وزارت خارجہ نے بھی بدھ کے روز اپنے ردعمل میں ہنیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس کے لیے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرایا اور خبردار کیا کہ تازہ ترین کشیدگی ''پورے خطے کو آگ لگا سکتی ہے۔‘‘ ایک بیان میں کہا گیا، ''شام اس اسرائیلی جارحیت کی صریح مذمت کرتا ہے۔‘‘
شامی وزارت خارجہ نے ہنیہ کے قتل کو ''قابل نفرت فعل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ''اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی مسلسل بے توقیری پورے خطے کو آگ لگا سکتی ہے۔‘‘
اسی دوران قطر، عراق اور روس نے بھی ہنیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے میں عدم استحکام مزید بڑھ جانے کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
فلسطینی، لبنانی اور یمنی عسکری گرپوں کا ردعمل
حماس کے مسلح ونگ نے کہا ہے کہ تہران میں اسماعیل ہنیہ کا قتل ''جنگ کو نئی جہت تک لے جائے گا‘‘ اور اس کے بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔ مغربی ممالک کی جانب سے حماس ہی کی طرح دہشت گرد قرار دی گئی فلسطینی عسکری تنظیم اسلامی جہاد نے بھی اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کی ہے۔ اس تنظیم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہنیہ ایک بڑے رہنما اور ''مزاحمت کی علامت‘‘ تھے۔
اس بیان میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ ہنیہ کی موت فلسطینی عوام کو ان کی اسرائیل کے خلاف جاری مزاحمت سے باز نہیں رکھ سکتی۔ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا نے بھی ہنیہ کی ہلاکت کو فلسطینی عوام کے لیے بہت بڑا نقصان قرار دیا ہے۔
حوثی سپریم پولیٹیکل کونسل کے چیئرمین مہدی المشاط نے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ کو خطے میں تنازعات میں اضافے کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔ خیال رہے کہ یمن کی ایران نواز حوثی ملیشیا غزہ کی جنگ میں حماس کی طرف دار ہے۔ حوثی باغی گزشتہ اکتوبر میں غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے بحیرہ احمر میں اسرائیل سے منسلک تجارتی بحری جہازوں کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔
خطے میں اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں میں مصروف لبنانی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت سے فلسطینی مزاحمت کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط ہو گی۔ اس گروپ نے ہنیہ کو موجودہ دور کے بڑے مزاحمتی رہنماؤں میں سے ایک قرار دیا۔
خیال رہے کہ لبنان میں حزب اللہ ملیشیا بھی عسکریت پسند فلسطینی گروہ حماس کی اتحادی ہے۔ یہ حماس کا سات اکتوبر کو اسرائیل پر کیا گیا دہشت گردانہ حملہ ہی تھا، جس کے بعد سے اب تک غزہ کی جنگ جاری ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے اسرائیل مخالف حملے حماس کی حمایت میں ہیں اور اگر غزہ میں جنگ بندی ہو جاتی ہے، تو اسرائیل کے خلاف حملے بھی روک دیے جائیں گے۔
ش ر ⁄ م م، رب (روئٹرز، اے ایف پی)