1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد کیا ہوگا؟

27 نومبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے اسمبلیوں سے باہر آنے کے فیصلے کے بعد ملک میں جاری سیاسی بحران سنگین ہو گیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اب حکومت کے لیے نئے قبل از وقت انتخابات کو روکنا آسان نہیں ہو گا۔

تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

ہفتہ 26 نومبر کی شام راولپنڈی میں لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انہوں نے تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے: ''ہم بجائے اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کریں، بجائے اپنے ملک میں تباہی کے، اس سے بہتر ہے کہ ہم اس کرپٹ نظام سے باہر نکلیں اور اس سسٹم کا حصہ نہ بنیں، جدھر یہ چور بیٹھ کر ہر روز اپنے اربوں روپے کے کیسز معاف کروا رہے ہیں۔‘‘

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے اپنے ایک بیان میں عمران خان کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ''پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی جبکہ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں سے پی ٹی آئی ارکان مستعفی ہو جائیں گے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں برقرار رکھی جائیں گی۔‘‘ فواد چوہدری کے مطابق اسمبلیوں سے نکلنے کا عمل اسی ہفتے مکمل کر لیا جائے گا۔

اس اعلان کے بعد رات گئے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ عمران خان اپنے اس فیصلے پر ثابت قدم رہ پائیں گے۔ ان کے خیال میں عمران خان نے سوچ سمجھ کر اسمبلیوں سے نکلنے کی ڈیڈ لائن دینے سے گریز کیا ہے: ''عمران خان نے ابھی سوچنا ہے، پارٹی ارکان  اور وزرائے اعلٰی سے مشورہ کرنا ہے اور پھر جا کے کہیں فیصلہ کرنا ہے۔‘‘

اگرچہ وزیراعلی پنجاب پرویز الٰہی کے صاحب زادے مونس الٰہی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ''جس دن عمران خان نے کہا اس وقت پنجاب اسمبلی توڑ دی جائے گی۔‘‘ لیکن اس کے باوجود پنجاب میں کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے قربت کی شہرت رکھنے والے پرویز الٰہی آسانی سے اسمبلی توڑنے پر راضی نہیں ہوں گے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کئی ارکان اسمبلی بھی ابھی اسمبلی کی تحلیل نہیں چاہتے۔

بعض ماہرین کے مطابق اس فیصلے کا باعث بننے والی وجوہات میں بڑھتی ہوئی سردی، لانگ مارچ کے اخراجات کا بندوبست کرنے میں دشواری، شرکاء کی تعداد کے حوالے سے توقعات کا پورا نہ ہونا، سخت حکومتی اقدامات، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عدم مفاہمت وغیرہ شامل ہیں۔تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

لاہور میں آج اتوار 27 نومبر کو پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے ایک غیر رسمی اجلاس میں پی ٹی آئی کی طرف سے اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلان کے بعد کی صورتحال پر صلاح مشورہ کیا گیا۔ اسمبلیوں کو تحلیل ہونے سے بچانے کے لیے عدم اعتماد کی قرارداد لانے کی تجویز پر بھی غور کیا گیا۔ یاد رہے کسی بھی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرار داد لانے کے لیے محض 20 فیصد ارکان کی ضرورت ہوتی ہے اور اپوزیشن اتحاد کے پاس پنجاب اور سندھ میں اتنے ارکان موجود ہیں۔

پاکستان میں قانون کے مطابق  قرارداد عدم اعتماد لائے جانے کی صورت میں اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔ اجلاس میں کے پی میں گورنر راج لگانے کے امکانات اور اس کے رد عمل کا جائزہ بھی لیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے پنجاب میں تبدیلی کا عمل مکمل کرنے کے حوالے سے بھی غور کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس سلسلے میں یاکستان ڈیموکریٹک الائنس کی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔

عمران خان نے اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

اس سوال کے جواب میں بہت سی آرا سامنے آ رہی ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق اس فیصلے کا باعث بننے والی وجوہات میں بڑھتی ہوئی سردی، لانگ مارچ کے اخراجات کا بندوبست کرنے میں دشواری، شرکاء کی تعداد کے حوالے سے توقعات کا پورا نہ ہونا، سخت حکومتی اقدامات، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عدم مفاہمت وغیرہ شامل ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک عمران خان کو مکمل طور پر صحت یاب ہونے میں تین ماہ مزید لگ سکتے ہیں ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھی لوگوں کی لانگ مارچ میں دلچسپی کم ہو گئی تھی۔

پی ٹی آئی لاہور کے ایک رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں ایسی صوبائی حکومت رکھنے کا کیا فائدہ جس میں ہمارے پہاس کوئی اختیار ہی نہ ہو۔ ان کے بقول اپنے صوبے میں اپنی حکومت اور اپنی پولیس کے ہوتے ہوئے ہم عمران خان پر حملے کی اپنی مرضی سے ایف آئی آر تک درج نہیں کروا سکے۔ عمران خان کے مخالف حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کر کے اپنے کارکنوں کو فیس سیونگ مہیا کی ہے۔

سینئر تجزیہ کار نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان احتجاجی سیاست سے حکومت گرانے، اسٹیبلشمنٹ سے مطالبات منوانے اور الیکشن کی تاریخ لینے میں ناکام رہے ہیں: ''انہوں نے پاکستانی سیاست کی بے رحم حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئےاسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کر کے دراصل سیاسی پسپائی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘

نوید چوہدری کی رائے میں اب عمران خان کو نہ صرف اپنی حکومتوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ ان کے خلاف پہلے سے درج مقدمات میں تیزی آئے گی اور آنے والا وقت ان کے لیے آ سان نہیں ہوگا۔ اس فضا میں وہ ایک ایسے الیکشن میں حصہ لیں گے جس میں ان کو غیر جمہوری طاقتوں کا تعاون میسر نہیں ہوگا۔

دفاعی تجزیہ کار برگیڈیئر (ر) فارووق حمید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کی طرف سےاسمبلیوں کی تحیلیل کے فیصلے نے ملکی سیاست  کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے اور اس سے ملک میں پہلے سے موجود سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی کی صورتحال  میں اضافہ ہو گا۔ ان کے نزدیک اس ساری صورتحال کا واحد علاج انتخابات کا فوری انعقاد ہے: ''پاکستان کے پاس تو زہر کھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں تو پھر اربوں روپے خرچ کرکے اگلے چند ہفتوں میں صرف تین چار ماہ کی مدت کے لیے  563 سیٹوں پر ضمنی الیکشن کیسے کروائے جا سکتے ہیں۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں