1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسمگلروں نے پچاس مہاجرین کو دانستاﹰ ڈبو دیا، آئی او ایم

شمشیر حیدر اے پی
10 اگست 2017

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق یمن کے ساحلوں کے قریب انسانوں کے اسمگلروں نے دانستاﹰ قریب پچاس تارکین وطن کو سمندر میں ڈبو دیا۔ ادارے نے یمنی ساحلوں کے قریب پیش آنے والے اس واقعے کو ’غیر انسانی عمل‘ قرار دیا۔

Bootsflüchtlinge im Mittelmeer
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Morenatti

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے حوالے سے لکھا ہے کہ صومالیہ اور ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے پچاس سے زائد تارکین وطن کی ہلاکت کا یہ واقعہ یمنی ساحلوں کے قریب پیش آیا۔ آئی او ایم کے مطابق انسانوں کے ایک اسمگلر نے تارکین وطن سے بھری ہوئی کشتی کو کھلے سمندر کی جانب جانے پر مجبور کیا۔

بحیرہ روم کے ذریعے اسپین پہنچنے کا انتہائی خطرناک راستہ

بحیرہ روم میں حادثہ: گیارہ مہاجرین ہلاک دو سو لا پتہ

آئی او ایم نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس کشتی میں مجموعی طور پر 180 سے زائد تارکین وطن سوار تھے جن کی اوسط عمر محض سولہ برس تھی۔ سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والے کئی تارکین وطن کی لاشیں نکال لی گئی ہیں تاہم ابھی تک بائیس تارکین وطن گمشدہ ہیں۔

یمن میں جاری جنگ کے باوجود افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی تارکین وطن خلیجی ممالک تک پہنچنے کے لیے اسی روٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔

آئی او ایم کی یمنی شاخ کے سربراہ لاؤرینٹ ڈی بؤک نے اے پی سے کی گئی اپنی ایک گفتگو میں کہا، ’’اس واقعے میں بچ جانے والے تارکین وطن نے آئی او ایم کو بتایا ہے کہ یمنی ساحلوں کے قریب مبینہ طور پر سکیورٹی حکام کی موجودگی کے باعث اسمگلر نے زبردستی کشتی کو کھلے پانیوں کی جانب موڑ دیا۔‘‘

ڈی بؤک نے تارکین وطن کے حوالے سے مزید بتایا کہ انسانوں کا یہ اسمگلر ’انہی راستوں سے مزید تارکین وطن کو لانے کے لیے خود واپس صومالیہ روانہ ہو گیا‘ تھا۔

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق حالیہ دنوں میں بحر ہند میں چلنے والی تیز ہواؤں اور طغیانی کے سبب ان سمندری راستوں کے ذریعے گلف ممالک کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی مشکلات میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ ڈی بؤک کے مطابق، ’’بے تحاشا نوجوان بہتر مستقبل کی غلط امیدوں میں انسانوں کے اسمگلروں کو بھاری رقوم ادا کر کے یہ راستے اختیار کر رہے ہیں۔‘‘

ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک مختلف افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے پچپن ہزار سے زائد تارکین وطن ان سمندری راستوں کے ذریعے یمن پہنچ چکے ہیں۔ گزشتہ برس مجموعی طور پر ایک لاکھ دس ہزار سے زائد تارکین وطن بحر ہند کے راستوں کے ذریعے یمن پہنچے تھے۔

امدادی ادارے یا مہاجرین کو یورپ لانے کی ’ٹیکسی سروس‘؟

ترکی سے اٹلی: انسانوں کے اسمگلروں کا نیا اور خطرناک راستہ

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے

03:00

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں