اسمگلروں نے پچاس مہاجرین کو دانستاﹰ ڈبو دیا، آئی او ایم
شمشیر حیدر اے پی
10 اگست 2017
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق یمن کے ساحلوں کے قریب انسانوں کے اسمگلروں نے دانستاﹰ قریب پچاس تارکین وطن کو سمندر میں ڈبو دیا۔ ادارے نے یمنی ساحلوں کے قریب پیش آنے والے اس واقعے کو ’غیر انسانی عمل‘ قرار دیا۔
اشتہار
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے حوالے سے لکھا ہے کہ صومالیہ اور ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے پچاس سے زائد تارکین وطن کی ہلاکت کا یہ واقعہ یمنی ساحلوں کے قریب پیش آیا۔ آئی او ایم کے مطابق انسانوں کے ایک اسمگلر نے تارکین وطن سے بھری ہوئی کشتی کو کھلے سمندر کی جانب جانے پر مجبور کیا۔
آئی او ایم نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس کشتی میں مجموعی طور پر 180 سے زائد تارکین وطن سوار تھے جن کی اوسط عمر محض سولہ برس تھی۔ سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والے کئی تارکین وطن کی لاشیں نکال لی گئی ہیں تاہم ابھی تک بائیس تارکین وطن گمشدہ ہیں۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
10 تصاویر1 | 10
یمن میں جاری جنگ کے باوجود افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی تارکین وطن خلیجی ممالک تک پہنچنے کے لیے اسی روٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔
آئی او ایم کی یمنی شاخ کے سربراہ لاؤرینٹ ڈی بؤک نے اے پی سے کی گئی اپنی ایک گفتگو میں کہا، ’’اس واقعے میں بچ جانے والے تارکین وطن نے آئی او ایم کو بتایا ہے کہ یمنی ساحلوں کے قریب مبینہ طور پر سکیورٹی حکام کی موجودگی کے باعث اسمگلر نے زبردستی کشتی کو کھلے پانیوں کی جانب موڑ دیا۔‘‘
ڈی بؤک نے تارکین وطن کے حوالے سے مزید بتایا کہ انسانوں کا یہ اسمگلر ’انہی راستوں سے مزید تارکین وطن کو لانے کے لیے خود واپس صومالیہ روانہ ہو گیا‘ تھا۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق حالیہ دنوں میں بحر ہند میں چلنے والی تیز ہواؤں اور طغیانی کے سبب ان سمندری راستوں کے ذریعے گلف ممالک کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی مشکلات میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ ڈی بؤک کے مطابق، ’’بے تحاشا نوجوان بہتر مستقبل کی غلط امیدوں میں انسانوں کے اسمگلروں کو بھاری رقوم ادا کر کے یہ راستے اختیار کر رہے ہیں۔‘‘
ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک مختلف افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے پچپن ہزار سے زائد تارکین وطن ان سمندری راستوں کے ذریعے یمن پہنچ چکے ہیں۔ گزشتہ برس مجموعی طور پر ایک لاکھ دس ہزار سے زائد تارکین وطن بحر ہند کے راستوں کے ذریعے یمن پہنچے تھے۔