1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سائنسشمالی امریکہ

اسٹار وار مووی، زمینی مدار میں حقیقت بن گئی

12 فروری 2022

گزشتہ ماہ ایک پرائیویٹ سیٹلائٹ ٹریکنگ کمپنی نے ایک چینی خلائی جہاز کو دیکھا جس نے بظاہر ایک ناکارہ سیٹلائٹ کو پکڑ کر اسے ’گریویارڈ‘ میں جا پھینکا۔

ESA will das Weltall aufräumen | ClearSpace-1
تصویر: ESA/ClearSpace SA

زمینی مدار میں گردش کرتے مصنوعی سیاروں پر نظر رکھنے والی ایک پرائیویٹ کمپنی نے گزشتہ ماہ ایک چینی خلائی جہاز کو دیکھا جس نے بظاہر ایک ناکارہ سیٹلائٹ کو پکڑ کر اُسے کئی سو کلو میٹر کی دوری پر واقع مدار کے ایسے علاقے میں جا پھینکا جسے 'مصنوعی سیاروں کا قبرستان‘ کہا جاتا ہے۔

جنوری کے اواخر میں ایک چینی سیٹلائٹ کو  ایک مصنوعی سیارے کو پکڑتے ہوئے پایا گیا جو کافی عرصے سے ناکارہ ہو چکا تھا اور زمین کے مدار میں گردش کر رہا تھا۔ اس کے چند دن بعد اس ناکارہ سیٹلائت کو مدار سے 300 کلومیٹر دور ایک ایسے مدار میں جا کر  چھوڑ دیا گیا جسے 'گریویارڈ‘ یا قبرستان کہا جاتا ہے۔ گریویارڈ مدار میں موجود چیزوں کا کسی خلائی جہاز یا سیٹلائٹ سے ٹکرانے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

خلا میں پیش آنے والے ان نادر واقعات کے بارے میں ڈاکٹر برائن فلیوویلنگ نے ایک ویبینار میں بتایا جس کا اہتمام 'سنٹر آف اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز اینڈ سکیور ورلڈ فاؤنڈیشن‘ کی طرف سے گزشتہ ماہ کیا گیا تھا۔ فلیوویلنگ 'ایکسو اینالیٹک سولوشنز‘ نامی پرائیویٹ امریکی کمپنی سے وابستہ ہیں جو دنیا بھر میں نصب ٹیلی اسکوپس کے ایک نیٹ ورک کے ذریعے زمینی مدار میں گردش کرتے مصنوعی سیاروں یا سٹیلائٹس کی پوزیشن پر نظر رکھتی ہے۔

یہ سب ہوا کیسے؟

22 جنوری کو چینی SJ-21 سیٹلائٹ کو دیکھا گیا کہ وہ اپنی طے شدہ جگہ سے ہٹ کر چین کے ہی ایک طویل عرصے سے ناکارہ سیٹلائٹ کمپاس  جی ٹو Compass-G2 کی طرف بڑھ رہا تھا۔ چند دن کے بعد ایس جی اکیس کو دیکھا گیا کہ وہ جی ٹو کے ساتھ لگ کر اپنی پوزیشن پھر بدل رہا تھا۔

اندازہ ہے کہ زمینی مدار میں کئی ملین اجزا خلائی کوڑے کی شکل چکر لگا رہے ہیں۔تصویر: gemeinfrei

چینی حکام کی طرف سے ابھی تک اس تناظر میں کچھ نہیں کہا گیاکہ آیا خلا میں کسی ناکارہ سیٹلائٹ کو یوں پکڑا گیا یا اسپیس ٹیگ کا تجربہ کیا گیا ہے۔

مصنوعی سیارے کو پکڑنے کے چند دن کے اندر ان جڑے ہوئے سیٹلائٹس کو اپنے راستے سے ایک ساتھ ہٹتے ہوئے دیکھا گیا۔ ایکسو اینالیٹک کی طرف سے دکھائی گئی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 26 جنوری کو یہ دونوں سیٹلائٹ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے اور کمپاس جی ٹو کو ایک ایسے مدار میں دھکیل دیا گیا جہاں موجود سیٹلائٹس کا یا خلائی کوڑے کا خلائی جہازوں سے ٹکرانے کا بہت کم امکان ہوتا ہے اور  اسی لیے مدار کے اس علاقے کو سیٹلائٹس کا قبرستان کہا جاتا ہے۔

کمپاس جی ٹو چین کے بائیدو ٹو نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم کا حصہ تھا اور 2009ء میں خلا میں بھیجے جانے کے فوری بعد ہی اس نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ یعنی 10 برس سے بھی زائد عرصے تک یہ بھی خلائی کوڑے میں شامل کئی ملین اجزاء کے ساتھ زمینی مدار میں چکر لگا رہا تھا۔

ایس جے ٹونٹی ون جس نے کمپاس جی ٹو کو خلائی سیاروں کے قبرستان پہنچایا، اکتوبر 2021ء میں لانچ کیا گیا تھا اور اب یہ واپس اپنے جیو اسٹیشنری مدار (GEO) میں واپس پہنچ چکا ہے۔ جیو اس صورت میں عمل میں آتا ہے جب زمین کے گرد گردش کرتے سیارے کی رفتار اور زمین کی اپنے ایکسل کے گرد گردش کی رفتار ایک جیسی ہو جائے۔ ایسی صورت میں مدار میں گردش کرتا ہوا سیٹلائٹ زمین کے اوپر ایک ہی مقام پر معلق محسوس ہوتا ہے۔ اس طرح کے مدار میں سیٹلائٹ کی موجودگی ٹیلی کمیونیکشن اور دیگر سروسز کے لیے انتہائی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

چین کا ناکارہ سیٹلائٹ سے چھٹکارا حاصل کرنا، ایک خدمت یا خطرہ؟

ایک ناکارہ مصنوعی سیارے سے چھٹکارا حاصل کرنا کوئی غلط بات نہیں کیونکہکئی ممالک ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جو ہمارے زمینی مدار میں کئی ملین کی تعداد میں گردش کرتے خلائی کوڑے کو ٹھکانے لگا سکے۔

تاہم چین کی طرف سے اس پیشرفت پر بعض چینی حکام کی طرف سے تحفظات کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ یو ایس اسپیس کمانڈ کے سربراہ جیمز ڈکنسن نے اپریل 2021ء میں کہا تھا کہ چین کی طرف سے ایس جے 21 جیسی ٹیکنالوجی ''مستقبل میں دیگر سیٹلائٹس کو بھی ان کے مدار سے ہٹانے کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔‘‘

چینی چاند مشن کی خاص بات کیا ہے؟

02:38

This browser does not support the video element.

لیکن کیا یہ خطرہ واقعی حقیقت رکھتا ہے؟

سکیور ورلڈ فاؤنڈیشن نے اپنی 2021ء کی کاؤنٹر اسپیس رپورٹ میں کہا تھا اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ چین اور روس ایسی ٹیکنالوجی کی تیاری پر کام کر رہے ہیں جو 'کاؤنٹر اسپیس کیپیبلٹی‘ کی حامل ہو، یعنی جو خلائی نظاموں کو تباہ کر سکے۔

تاہم امریکی ایئرفورس کے ایک تھنک ٹینک 'چائنیز ایرواسپیس اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ‘ کی طرف سے 2021ء میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایس جے 21 کا استعمال بہت ممکنہ طور پر خلائی کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے طریقہ کار کو جانچنے تک ہی محدود رہے گا۔

ایستیبان پیڈرو (ا ب ا/ع ح)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں