1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسٹیٹ بینک کے تاریخی اقدامات، صنعت کاروں کی رائے تقسیم

13 اپریل 2020

کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے پاکستان میں سختی سے لاک ڈاؤن جاری ہے۔ اس صورتحال میں اسٹیٹ بینک نےکوروناوائرس سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کے حل کے لیے ایک پیکج کا اعلان کیا ہے، جس پر صنعت کاروں کی رائے منقسم ہے۔ 

Lockdown Peshawar Pakistan
تصویر: DW/Fareedullah Khan

کورونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن کے دوران دیہاڑی دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے، جبکہ کئی صنعتکاروں نے صنعتی پیداوار اور برامدات کم ہونے کی وجہ سے سیکڑوں ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا ہے۔ ایسے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کوروناوائرس کی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات سے نبرد آزما کارکنوں کے روزگار کو سہارا دینے کے لیے''ری فنانس اسکیم فار پیمنٹ آف ویجز اینڈ سیلریز ٹو دی ورکرز اینڈ ایمپلائز آف بزنس کنسرنس‘‘ کے نام سے کاروباری اداروں کے لیے ایک عارضی ری فنانس اسکیم متعارف کرائی ہے۔

گورنراسٹیٹ بینک رضا باقر کا کہنا تھا،''سہولت کا مقصد کاروباری اداروں کو ترغیب دینا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران ملازمین کو برطرف نہ کریں۔ اسکیم کے تحت صنعت کار پانچ فیصد مارک اپ پر قرضہ لے سکیں گے جبکہ ٹیکس دہندہ صنعت کاروں کو یہ قرضہ چار فیصد پر دیا جائے گا۔ یہ اسکیم پاکستان کے تمام کاروباری اداروں کو بینکوں کے توسط سے دستیاب ہو گی۔‘‘

تصویر: DW/T. Shahzad

ڈاکٹر رضا باقر کا مزید کہنا تھا،''اسکیم کے تحت ان کاروباری اداروں کو جو اپریل تا جون 2020ء کے دوران اپنے ملازمین کو برطرف نہیں کریں گے، انہیں اِن تین مہینوں کی اجرتوں اور تنخواہوں کے اخراجات کے لیے فنانسنگ فراہم کی جائے گی۔ قرض کی اصل رقم کی ادائیگی دو سال میں کرنی ہوگی جبکہ قرض لینے والوں کو چھ ماہ کی رعایتی مہلت بھی دی جائے گی۔‘‘

دوسری جانب صنعت کار اسٹیٹ بینک کے اس اقدام سے کچھ زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتے۔ بیشتر صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں مالی مدد کا اعلان ہوتا تو زیادہ مناسب تھا۔ ممتاز تاجر رہنما سراج قاسم تیلی نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا،''پہلے ہی پالیسی ریٹ گیارہ فیصد پر موجود ہے، جو خطے میں بہت زیادہ ہے۔ ساتھ ہی لاک ڈاؤن کے باعث صنعتی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے، ایسے میں مالکان ملازمین کی تنخواہوں کا بوجھ کیسے اٹھائیں؟ اسٹیٹ بینک کے اس اقدام سے کچھ سہارا تو ملے گا، لیکن بنیادی پالیسی ریٹ 5 فیصد تک لایا جائے تو زیادہ ریلیف ملے گا۔‘‘

ماہرین کے مطابق مرکزی بینک کی اس اسکیم سے چھوٹے کاروباری اداروں کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ جن کاروباری اداروں کی تین ماہ کی اجرتوں اور تنخواہوں کا خرچ بیس کروڑ روپے تک ہے وہ اس پوری رقم کی فنانسنگ حاصل کرسکیں گے، جبکہ وہ کاروباری ادارے جن کی اجرتوں اور تنخواہوں کا خرچ پچاس کروڑ روپے سے زیادہ ہے وہ اس خرچ کے پچاس فیصد تک فنانسنگ حاصل کر سکیں گے۔ درمیانی کٹیگری میں آنے والے تین ماہ کی اجرتوں اور تنخواہوں کے خرچ کے 75 فیصد تک فنانسنگ حاصل کرسکیں گے۔ بینک اس اسکیم کے تحت قرضے کی پروسیسنگ فیس، کریڈٹ لمٹ فیس، پری پیمنٹ پینالٹی چارج نہیں کریں گے۔
ایوان صنعت و تجارت کراچی کے سابق صدر شمیم احمد فرپو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''مرکزی بینک کا اقدام قابل تحسین ہے، لیکن یہ صنعت کاروں پر بوجھ ہی ثابت ہوگا، کیونکہ صنعت کار چار یا پانچ فیصد مارک اپ پر قرضہ لیں گے، لیکن یہ قرضہ انہیں واپس بھی تو کرنا ہو گا۔‘‘
پاکستان ہوزری مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین جاوید بلوانی نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے کہا یہ قرض بھی صنعت کاروں پر واجب الادا ہوگا،'' اسے لینے سے ہمارے واجبات مزید بڑھ جائیں گے۔ ایک طرف صنعتی پیداوار بند ہے، اس پر مستزاد کہ ہم کسی ملازم کو فارغ بھی نہیں کر سکتے، ہم اپنے اخراجات کہاں سے پورے کریں؟ اسٹیٹ بینک کی اسکیم سے فائدہ اٹھائیں تو اس پر مارک اپ ادا کریں۔‘‘
جاوید بلوانی کے بقول سوشل سکیورٹی فنڈ اور ای او بی ای آئی میں اربون روپے کے فنڈ جمع ہیں اور  یہ رقم انہی مشکلات کے لیے جمع کی جاتی ہے،''صوبائی حکومت سوشل سیکورٹی کے فنڈز میں سے صنعتوں کو رقم دے تاکہ وہ اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کرسکیں۔‘‘
تاہم اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز سے وابستہ افراد اسٹیٹ بینک کی اس اسکیم سے کافی مطمئن ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ اسکیم صنعتی پیداوار کی بحالی اور ملازمین کو بیروزگاری سے بچانے میں مددگار ثابت ہو گی۔

تصویر: AP



چھوٹے تاجر فاروق احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موجودہ حالات میں کام تقریباﹰ بند ہے، تاجروں کے پاس پیسہ نہیں، ایسے میں اگر بینکوں سے کم مارک اپ پر قرضہ مل رہا ہے، تو اچھی بات ہے، چھوٹے تاجر اس اسکیم سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جتنا کم قرضہ لیا جائے گا اتنی ہی ادائیگی آسان اور جلد ہو گی۔
بینک دولت پاکستان کے مطابق بینک اس اسکیم کے استعمال پر اسٹیٹ بینک کو ہفتہ وار رپورٹنگ فراہم کریں گے۔ خصوصاً اس اسکیم کے تحت فنانسنگ کی درخواستوں رد کرنے کی وجوہات بھی بتائیں گے۔ اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ اس اسکیم کا ایک بڑا فائدہ یہ پہنچے گا کہ جو آجر اپنے پے رول پر ملازمین کو برقرار رکھیں گے، وہ صورت حال معمول پر آنے پر جلد اپنی پیداوار بحال کر سکیں گے یا اس میں اضافہ کرسکیں گے۔

دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا،''مرکزی بینک کے ان اقدامات سے معیشت کو سہارا ملے گا اور روزگار کی فراہمی بحال رہے گی۔‘‘

اس سے قبل پاکستان کے مرکزی بینک نے مارچ کے وسط میں پالیسی ریٹ میں پچہتر بیسز پوائنٹس کمی کی تھی، جس کے بعد انٹرسٹ ریٹ ساڑھے بارہ فیصد پر آگیا تھا۔تاہم ملکی معیشت کو کورونا سے پہنچنے والے ممکنہ نقصانات سے بچانے کے لیے ایک ہفتے بعد پالسیی ریٹ میں مزید ڈیڑھ فیصد کمی کی گئی، جس کے بعد موجودہ پالیسی ریٹ گیارہ فیصد ہوگیا۔ اس کے باوجود صنعت کار اور کاروباری طبقہ پالیسی ریٹ میں مزید کمی کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ نئی ری فنانس اسکیم اسٹیٹ بینک کے حالیہ اقدامات کی ہی ایک کڑی ہے۔

کورونا وائرس: پاکستان میں لاکھوں مزدور بے روزگار

02:55

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں