1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسپورٹس کی دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ''سیکس ٹورشن‘‘

4 جون 2022

اسپورٹس کے شعبے میں جنسی استحصال یعنی Sextortion کے کئی ہائی پروفائل کیسز نے اس مسئلے کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کی ہے۔ تاہم باہر سے یہ مسئلہ جتنا سادہ نظر آتا ہے اندر سے وہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔

England | 2018 Gymnastics British Championships
تصویر: Laurence Griffiths/Getty Images

بدعنوانی پر نگاہ رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی تازہ رپورٹ میں اسپورٹس کی دنیا میں جنسی استحصال پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ سروے میں جرمنی کے علاوہ رومانیہ، میکسیکو اور زمبابوے میں اسپورٹس میں بدعنوانی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں ہر تین میں سے ایک کھلاڑی کو اسپورٹس میں جنسی تشدد کی کم از کم ایک صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

گوکہ جمناسٹک اور فٹ بال جیسے اسپورٹس میں حالیہ دنوں کئی ہائی پروفائل کیسز میں جنسی استحصال کے بڑھتے ہوئے معاملات سامنے آئے ہیں تاہم ایسے بہت سے کیسز کا بھی پتہ چلا جنہیں رپورٹ نہیں کیا گیا تھا۔

اپنے اختیارات اور طاقت کا غلط استعمال کر کے کسی کو جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے مجبور کرنا سیکس ٹورشن کہلاتا ہے۔ یہ بدعنوانی اور جنسی استحصال دونوں کی مشترکہ شکل ہے حالانکہ اس تعریف کو ابھی تک پوری طرح تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

ٓامریکی اولمپکس جمناسٹ سائمن بالز جنسی استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے والی خواتین میں سے ایک ہیںتصویر: Graeme Jennings/Pool/AP/picture alliance

طاقت کا کھیل

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل میں ریسرچ شعبے کی سربراہ میری چین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،''جو کچھ میرے سامنے آیا، اس نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ اسپورٹس کا شعبہ سیکس ٹورشن کے مسئلے کو برقرار رکھنے کے لیے تمام ضروری مواقع فراہم کراتا ہے۔ اس شعبے میں مختلف لوگوں کے درمیان طاقت کا کافی فاصلہ ہے۔ کئی ایسے بچے ہیں جو کافی کمزور حالت میں ہیں۔ کھیل کی نوعیت کی وجہ سے کوچ اور ایتھلیٹ کے رشتے کافی قریبی، جذباتی اور جسمانی ہوتے ہیں۔‘‘

وہ مزید کہتی ہیں،''یہ ایسے رشتے ہوتے ہیں جہاں کچھ معاملات میں آپ کے کیریئر کو بنانے یا برباد کردینے کی طاقت ہوتی ہے۔ یہاں کا انتظامی ڈھانچا کافی کمزور ہوتا ہے جس کی وجہ سے صورت حال کبھی کبھی دھماکا خیز بن جاتی ہے۔‘‘

سیکس ٹورشن کی نئی تعریف کی وجہ سے اس مسئلے کے سلسلے میں جو رپورٹ تیار کی جاتی ہے وہ اسپورٹس کے اندر جنسی استحصال کے درج کرائے  گئے اعدادوشمار پر منحصر ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں تمام کھیلوں میں جنسی استحصال کے معاملات درج کیے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اسپورٹس سیکٹر کے اندر سیکس ٹورشن کی انکوائری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس عالمی ادارے کا خیال ہے کہ اسپورٹس کے شعبے میں خود اتنی طاقت ہے کہ وہ صورت حال کو تبدیل کرسکتا ہے۔

چین کہتی ہیں، ''ہمارا ماننا ہے کہ اسپورٹس سیکٹر کو سماجی قدروں کی صورت گری میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ اصولی طورپر اسپورٹس سماجی انصاف کے قیام سے متعلق ہے۔ اس کا مقصد غیر جانبدارانہ طورپر اہل افراد کو مواقع فراہم کرنا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہناتھا، ''اگر اسپورٹس میں جنسی استحصال ہورہا ہے تو یہ اس کے مشن کو کمزور کرتا ہے۔ اگر ہمیں اس مسئلے کو بھی واضح طورپر لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہے اور سیکس ٹورشن کو بھی بدعنوانی کی ایک شکل کے طورپر تسلیم کرانا ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ اسپورٹس سیکٹر اس کے لیے ایک اچھا ذریعہ ہوسکتا ہے۔‘‘

کئی کیسز میں جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی سیکس ٹورشن کا شکار ہوئے۔ حالانکہ رپورٹ میں یہ تصدیق کی گئی ہے کہ جنسی استحصال کے بیشتر معاملات میں ملوث مرد ہی تھے۔

چین کی پینگ شوائی کے معاملے نے گزشتہ برس دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کیتصویر: Monika Graff/UPI Photo/imago images

صنفی عدم مساوات

الگ الگ جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ جنسی استحصال کرنے والے مردوں کا تناسب 96 سے 100 کے درمیان تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ''انتہائی مردانہ ثقافت‘‘ قرارد دیا۔ اس مسئلے میں اضافہ ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ مثلاً تنظیم کی اعلیٰ ترین فیصلہ ساز سطح پر خواتین کی کمی اورخواتین ایتھلیٹوں کی کم تنخواہ اور ان کی کم تعداد وغیرہ۔

چین کہتی ہیں،''خواتین کے اسپورٹس کو مردوں کے اسپورٹس کے برابر اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ صنف کی بنیاد پر تنخواہوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ قیادت اور انتظامی امور میں خواتین ایتھلیٹس اور خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا،''یہ 'اولڈ بوائز نیٹ ورک‘ ہے جہاں بوڑھے لوگ دہائیوں تک عہدوں پر قابض رہتے ہیں۔ حالات کو بدلنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا اس لیے سسٹم جوں کا توں برقرار رہتا ہے۔‘‘

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جرمنی میں اسپورٹس پر ورکنگ گروپ کی چیئرمین سیلویا شینک نے ایک بیان میں کہا، ''چین کی پینگ شوائی سے لے کر امریکہ کی کائلی میک کینزی تک، یہ ایسی کھلاڑی ہیں جن کے پاس اب کیریئر میں آگے بڑھنے کا موقع نہیں ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں ملک کے سابق وزیراعظم پر جنسی استحصال کا الزام لگانے والی ٹینس کھلاڑی پینگ شوائی نے بعد میں اپنے الزامات واپس لے لیے تھے۔ دوسری طرف کائلی نے ایسوسی ایشن کی طرف سے مقرر کیے گئے کوچ پر طویل عرصے تک جنسی استحصال کرنے کا الزام لگایا تھا۔ کئی دیگر کھلاڑیوں کو بھی جنسی استحصال کرنے والے سسٹم کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔‘‘

کھیل کی نوعیت کی وجہ سے کوچ اور ایتھلیٹ کے رشتے کافی قریبی، جذباتی اور جسمانی ہوتے ہیںتصویر: Getty Images

کارروائی نہ ہونا مسئلے کی ایک اہم وجہ

اسپورٹس کے شعبے میں اس مسئلے کو ختم کرنے اور تبدیلی کے لیے جرمن اولمپک اسپورٹس کنفیڈریشن (ڈی او ایس بی) نے سن 2010 میں اسپورٹس میں جنسی تشدد سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے میونخ میں جاری اعلامیے کو اپنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ اس میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی۔

اس اعلامیے میں 15طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک اسپورٹس کوالیفیکیشن کے لیے جنسی تشدد کی روک تھام اور ضابطہ اخلاق کو لازمی طور پر اپنانا شامل ہے۔

ڈی او ایس بی نے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ اگر اسپورٹس فیڈریشنوں کو حکومت کی طرف سے اقتصادی مدد چاہیے تو انہیں جنسی تشدد کی روک تھام کے طریقوں کو اپنانا ہوگا۔

دوسری طرف اسپورٹس تنظیموں کے متعلق شکایت درج کرانے کے لیے بہتر نظام کی کمی کی وجہ سے بھی جنسی استحصال کے کیسز پر کارروائی نہیں ہو پا رہی ہے اور اس پر قابو پانے میں مسئلہ پیدا ہو  رہا ہے۔

شینک کہتی ہیں، ''جنسی استحصال کو روکنے کے لیے اسپورٹس تنظیموں اور حکومت کو کارروائی کرنی چاہیے۔ سب سے بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ جنسی استحصال کا کوئی واقعہ ہونے سے پہلے ہی اسے روک دیا جائے۔ اس کے لیے شفاف کلچر اور روک تھام کامضبوط ڈھانچا تعمیر کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی سیکس ٹورشن اور جنسی استحصال سے متعلق دیگر معاملات کے ساتھ ہی صنفی تفریق کو روکنے کے لیے بیداری پیدا کرنی ہوگی۔‘‘

مایا ناز نوجوان خاتون سنو بورڈر

03:59

This browser does not support the video element.

جنسی استحصال کے روک تھام کے لیے سفارشات

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں سفارشات کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس ادارے نے پہلی مرتبہ سیکس ٹورشن کی روک تھام پر زور دیا ہے۔اس میں کئی طویل مدتی مشورے بھی شامل ہیں۔ لیکن چین کا کہنا ہے کہ حالات کو بدلنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

وہ بتاتی ہیں،''ریسرچ کے دوران ہم نے بہت ساری خوفناک کہانیاں سنیں۔ کئی لوگوں کے خواب بکھر گئے۔ یہ صرف جنسی استحصال کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ بھی کہ جنسی استحصال کی رپورٹ کس طرح سامنے آ رہی ہے اور متاثرین کو کس طرح خاموش کرایا جارہا ہے۔‘‘

چین نے کہا، ''اب اسپورٹس میں تمام طرح کی بدعنوانیوں کے لیے خاموشی توڑنے اور معاف کردینے کے کلچر کو تبدیل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اسپورٹس تنظیموں، حکومتوں اور سول سوسائٹی کو بدسلوکی کے ایسے معاملات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔‘‘

ج ا/ ع ت (کلیکا مہتا)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں