اسپیس ایکس بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی جانب گامزن
31 مئی 2020
امریکا میں خلائی تحقیق کے ادارے ناسا نے پہلی بار نجی کمپنی کے تیار کردہ راکٹ میں اپنے دو خلاباز انٹرنیشنل خلائی اسٹیشن روانہ کردیے۔
اشتہار
امریکی حکومت کے مطابق اس سے خلائی پروازوں کی لاگت میں کمی آئے گی اور امریکا اپنی توجہ اور وسائل چاند اور مریخ تک پہنچنے پر لگا سکے گا۔
اس کے لیے ناسا نے اسپیس ایکس اور بوئنگ جیسی بڑی کمپنیوں کو خلائی پروازوں پر کام کرنے کا ٹھیکہ دے رکھا ہے۔ ناسا کے مطابق اگر اسپیس ایکس کے ساتھ یہ پہلا تجربہ کامیاب رہتا ہے تو کمپنی کے ساتھ مزید مشترکہ خلائی پروازوں پر کام شروع کردیا جائے گا۔ ناسا اور اسپیس ایکس کے درمیان ڈھائی ارب ڈالر سے زائد کے معاہدے کے تحت کمپنی خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن لے جانے کے لیے چھ پروازیں چلائے گی۔
امریکا نے سن دو ہزار گیارہ میں اپنا اسپیس شٹل پروگرام بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے اس کے خلا باز روس کی راکٹ پروازوں کا استعمال کرتے آئے ہیں۔ نو سال میں یہ پہلی بار ہے کہ امریکی سرزمین سے انسانوں کو خلا میں روانہ کیا گیا ہے۔
اس تاریخی سفر پر جانے والے دونوں افراد ڈَگ ہرلی اور باب بینکن خلابازی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کی یہ پرواز پہلے بدھ 27 مئی کے لیے طے تھی لیکن خرابی موسم کے باعث اسے ملتوی کر دیا گیا۔
ہفتے کو سفید اسپیس سوٹ اور ہیلمٹ میں ملبوس دونوں خلاباز 'فیلکن نائن‘ راکٹ پر نصب خلائی کیپسول 'ڈریگن‘ میں سوار ہوئے۔ انہوں نے ریاست فلوریڈا کے ساحل پر قائم کینیڈی اسپیس سینٹر سے دوپہر تین بج کر بائیس منٹ پر بلاسٹ آف کیا۔
کوئی ڈھائی منٹ بعد راکٹ کا نچلا حصہ الگ ہوکر سمندر میں موجود ایک ڈرون بحری جہاز پر واپس اتر گیا۔ اس کے مزید چھ منٹ بعد دونوں خلاباز حفاظت سے زمین کے گرد مدار میں پہنچ گئے۔
اس اسپیس لانچ کو دنیا میں لاکھوں لوگوں نے براہِ راست ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دیکھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پینس اسے دیکھنے کے لیے خصوصی طور پر فلوریڈا میں موجود تھے۔
اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا، ''ماضی کے صدور نے اپنے خلابازوں کو مدار میں بھیجنے کے لیے امریکا کو بیرونی طاقتوں کے رحم و کرم پر ڈال دیا تھا۔ آج ہم ایک بار پھر فخریہ طور پر امریکی خلابازوں کو امریکی راکٹوں پر روانہ کر رہے ہیں، جو کہ دنیا میں بہترین ہیں اور یہ امریکی سرزمین سے کیا جا رہا ہے۔
توقع ہے کہ ڈَگ ہرلی اور باب بینکن آج اتوار کو عالمی خلائی اسٹیشن پر پہنچ جائیں گے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکی خلاباز کتنا عرصہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن پر رہیں گے۔
مریخ پر کمند
زمین کے ہمسایہ سیارے مریخ پر زندگی کے آثار کی تلاش میں بھارت نے اپنا خلائی مشن روانہ کر دیا ہے۔ ’منگلیان‘ نامی خلائی شٹل 300 دنوں کے سفر کے بعد مریخ کے مدار میں پہنچے گی اور اُس کے گرد چکر لگاتے ہوئے ڈیٹا حاصل کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راکٹ کی کامیاب پرواز
سرخ سیارے مریخ کے لیے پہلا بھارتی مشن منگل پانچ نومبر کو مقامی وقت کے مطابق سہ پہر دو بج کر اڑتیس منٹ پر خلاء میں روانہ کر دیا گیا۔ ’منگلیان‘ (ہندی زبان میں مریخ کا مسافر) نامی خلائی شٹل کو جنوبی ریاست آندھرا پردیش سے ایک راکٹ کی مدد سے زمین کے مدار میں پہنچایا گیا۔ اس مشن کی کامیابی کی صورت میں بھارت بر اعظم ایشیا کا پہلا ملک ہو گا، جو خلائی شٹل کے ساتھ مریخ پر پہنچے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مریخ کے لیے پہلی بھارتی خلائی شٹل
بھارتی خلائی مشن کے منصوبے کو خلائی تحقیق کی بھارتی تنظیم ISRO کے بنگلور میں و اقع ہیڈ کوارٹر میں پایہء تکمیل کو پہنچایا گیا۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے دو سال تک سولہ ہزار کارکن مصروفِ کار رہے۔ 1.35 ٹن وزنی ’منگلیان‘ کا سائز ایک چھوٹی کار جتنا ہے۔ پروگرام کے مطابق اس شٹل کو مریخ تک پہنچنے میں تین سو روز لگیں گے۔
تصویر: imago/Xinhua
مریخ کے گرد ایک چکر
’منگلیان‘ محض ایک آربیٹر ہے یعنی اس کا کام محض اس سیارے کے گرد چکر لگانا اور پیمائشیں لینا ہے۔ اس شٹل کو مریخ کی سطح پر اُتارنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ISRO کا ہدف مریخ پر میتھین کا سراغ لگانا ہے۔ میتیھین کی موجودگی مریخ پر زندگی کی موجودگی کا پتہ دے گی کیونکہ ہماری زمین پر بھی انتہائی چھوٹے چھوٹے نامیاتی اجسام ہی گیس پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انتہائی جدید خلائی مرکز
یہ تصویر بنگلور میں ISRO کے مرکز کی ہے۔ مریخ کے اردگرد چکر لگانے کا منصوبہ ایسا واحد بڑا منصوبہ نہیں ہے، جسے بھارت میں عملی شکل دی گئی ہے۔ پانچ سال پہلے ISRO نے چاند کی جانب بھی ایک شٹل روانہ کی تھی۔ یہ شٹل پہلی ہی کوشش میں چاند تک پہنچ گئی تھی اور اس خلائی تنظیم کے لیے شہرت کا باعث بنی تھی تاہم ’چندریان‘ کے ساتھ رابطہ اگست 2009ء میں منقطع ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
امید و بیم کی کیفیت
یہ ٹیکنیشن خلائی اسٹیشن سری ہاری کوٹا میں شٹل کے ڈیٹا کو احتیاط سے جانچ رہا ہے۔ اب تک مریخ کے تمام مشنوں میں سے نصف سے زائد ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں، جن میں 2011ء کے چینی منصوبے کے ساتھ ساتھ 2003ء کا جاپانی منصوبہ بھی شامل ہیں۔ اب تک صرف امریکا، سابق سوویت یونین اور یورپ ہی مریخ کی جانب شٹلز روانہ کر سکے ہیں تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان ممالک کے پاس بجٹ بھی زیادہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
ایک نسبتاً سستا خلائی منصوبہ
اس بھارتی منصوبے پر 4.5 ارب روپے لاگت آئی ہے اور اس طرح یہ ایک مسافر بردار بوئنگ طیارے کے مقابلے میں بھی سستا ہے۔ امریکا اپنی مریخ شٹل "Maven" اٹھارہ نومبر کو روانہ کرنے والا ہے اور 455 ملین ڈالر یعنی چھ گنا زیادہ رقم خرچ کرے گا۔ بھارتی مریخ مشن تنقید کی زد میں ہے کیونکہ ایک ایسے ملک میں، جہاں دنیا کے تمام غریبوں کی ایک تہائی تعداد بستی ہے، بہت سے شہری اتنے مہنگے خلائی منصوبوں کے خلاف ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP
ISRO کے سربراہ کا جواب
اس منصوبے پر ہونے والی تنقید کے جواب میں خلائی تحقیق کی بھارتی تنظیم کے سربراہ کے رادھا کرشنن کہتے ہیں کہ یہ تنظیم ایسے مصنوعی سیارے بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، جن کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی بہتر ہوئی ہے۔ ISRO کو امید ہے کہ ’منگلیان‘ مشن کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل ہو گی اور آمدنی کے نئے ذرائع پیدا ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP
دیو ہیکل راکٹ
’منگلیان‘ اپنی پرواز شروع کرنے کے 45 منٹ بعد ہی زمینی مدار میں پہنچ گیا تاہم 350 ٹن وزنی راکٹ کو زمینی مدار سے نکل کر مریخ کی جانب روانہ ہونے میں کچھ وقت لگ جائے گا۔ یہ راکٹ ایک مہینے تک زمین کے گرد چکر لگاتا رہے گا، تب جا کر اُس کی رفتار میں اتنی قوت آ سکے گی کہ وہ زمین کی کششِ ثقل کو توڑ کر مریخ کی جانب اپنا سفر شروع کر سکے۔