یہ تمام مہاجرین سب صحارا افریقی ملکوں کے رہنے والے تھے۔ حکام کے مطابق تین زندہ بچ جانے والوں کو ٹینریف کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
اشتہار
اسپین کی مقامی ایمرجنسی سروسز نے پیر کے روز بتایا کہ اس کے کوسٹ گارڈ نے کینیری جزائر کے ساحل پر ایک کشتی میں سترہ کو مردہ حالت میں پایا۔
تین زندہ بچ جانے والے لوگوں، جن میں دو مرد اور ایک خاتون شامل ہیں، کو فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعہ ٹینریف کے ایک ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔
اسپین کی مقامی ایمرجنسی سروسز کی ترجمان نے بتایا”تین افراد ہائیپوتھرمیا سے متاثر تھے تاہم ان کی حالت اب ٹھیک ہے۔"
اس کشتی پر سب سے پہلے ہسپانوی فضائیہ کے ایک جہاز کی نگاہ پڑی جو ایل ہیئرو سے تقریباً 265 ناٹیکل میل دور کھڑی ہوئی تھی۔
اسپین کے میری ٹائم ریسکیو سروس کی ایک ترجمان نے بتایا کہ کشتی پر سوار تمام مہاجرین سب صحارا افریقی ملک سے تعلق رکھتے تھے۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ مہاجرین کہاں سے آئے تھے۔
کینیری جزائر میں مہاجرین کی آمد میں اضافہ
تمام تر خطرات کے باوجود افریقہ سے بحر اٹلانٹک عبور کر کے کینیری جزائر میں آنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یکم جنوری سے 31 مارچ کے درمیان تقریباً 3400 مہاجرین کینیری جزائر پہنچے تھے۔
پیر کے روز پیش آنے والے سانحے سے قبل بھی اس ماہ کے اوائل میں ایل ہیئرو میں اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک عارضی کشتی پر سوار 23 مہاجرین میں سے چار مردہ پائے گئے تھے۔
اتوار کے روز 100مہاجرین نے مراقش سے ہسپانوی علاقے کیوٹا پہنچنے کی کوشش کی۔
ج ا / ص ز (اے پی، روئٹرز)
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔