اسپین کی پارلیمان کے ایوان زیریں نے رضاکارانہ موت سے متعلق ایک بل کو منظور کرلیا ہے تاہم قانون بننے کے لیے سینیٹ سے اس کی منظوری ضروری ہے۔ قدامت پسند ارکان نے اس کی سخت مخالفت کی۔
اشتہار
اسپین نے جمعرات 17 دسمبر کو رضاکارانہ موت کو قانونی حیثیت دینے کی سمت میں ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے اس بل کو منظور کرلیا جس میں صحت یابی کی امید نہ رکھنے والے مریضوں کے لیے معالج کی مدد سے خود کشی کی اجازت دینے کی بات کہی گئی ہے۔
یہ بل سنگین لاعلاج بیماری یا پھر دائمی ناقابل برداشت مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کو مرگ بارضا یا پھر معالج کی مدد سے خودکشی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ پارلیمان کے ایوان زیریں میں بل کے حق میں 198 ووٹ پڑے جبکہ 138 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ اسپین کی بائیں بازو کی مخلوط حکومت کی جانب سے اس کی حمایت کے ساتھ ہی اعتدال پسند جماعت سیٹیزنس نے بھی اس کی حمایت کی۔
اسپین کے وزیر صحت سلواڈور ایلا نے پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہا، '' جب ناقابل برداشت درد کا سامنا ہو جس میں بہت سے لوگ مبتلا ہوتے ہیں، تو ایک سماج کی حیثیت سے، ہم بے حس ہرگز نہیں ہوسکتے۔''
اس بل کے باضابطہ قانون بننے کے لیے اس کی سینیٹ سے منظوری ضروری ہے۔ لیکن چونکہ پارلیمان کے ایوان زیریں میں اکثریت نے اس کی حمایت کی ہے اور گزشتہ برس اس سے متعلق ایک سروے میں بھی تقریبا ً90 فیصد ہسپانوی شہریوں نے اس کی حمایت کی تھی، اس لیے زیادہ امید اس بات کی ہے کہ سینیٹ میں بھی یہ منظور کر لیا جائیگا اور توقع ہے کہ آئندہ برس موسم بہار تک اس پر بطور قانون مہر ثبت ہو جائے گی۔
قانون کی محالفت
اسپین میں موجودہ قانون کے مطابق اس طرح کی خودکشی میں مدد کرنے پر 10 برس تک کی قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ پارلیمان میں بھی قدامت پسند جماعت 'پاپولر پارٹی' اور دائیں بازوکی سخت گیر جماعت 'واکس' نے اس کی سخت مخالفت کی۔
جب پارلیمان میں اس پر بحث ہورہی تھی تو دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ایک چھوٹا ساگروپ مرگ بارضا سے متعلق قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے میڈرڈ میں جمع ہوا۔ اس گروپ نے کھوپڑیوں اور انسانی ڈھانچوں سے مزین ایک سیاہ پرچم لہرا کر احتجاج کیا۔
لیکن اسپن میں ایک بڑا طبقہ اس کا حامی ہے اور اس نے جمعرات کو منظور ہونے والے اس قانون کی حمایت میں مختلف شہروں میں ریلیاں کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
موت بارضا پر عمل کی تفصیلات
اس مجوزہ قانون کے مطابق کسی بھی مریض کو مرگ بارضا پر عمل کے لیے چار مرحلوں میں اجازت لینی ہوگی۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ مریض کو موت سے دو ہفتے قبل ہی دو بار تحریری طور پر اس کے لیے درخواست دے کر اجازت لینی ہوگی۔ اس کے بعد ایسے شخص کو ڈاکٹر کے ساتھ صلاح و مشورہ کرنے کے بعد اس کی دوبارہ تصدیق کرانی ہوگی اور پھر موت سے پہلے بھی آخری بار اس کی تصدیق کرنی لازمی ہوگی۔
مریض کو اسپین کا شہری ہونا ضروری ہے یا پھر وہ وہاں پر مستقل قیام پذیر ہو اور عقل سلیم کے ساتھ بذات خود فیصلے لینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ چونکہ اسپین میں اب بھی ایک بڑا طبقہ کیتھولک مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اس بل میں اس بات کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی ڈاکٹر یا پھر طبی عملے کا کوئی شخص مرگ بارضا کے عمل میں شریک نہ ہونا چاہے تو اسے ایسا کرنے کی آزادی ہے۔
جمعرات کو ہونے والی اس ووٹنگ میں ملک کے وزیر اعظم پیدرو شانچیز نے حصہ نہیں لیا جو کہ اس وقت قرنطینہ میں ہیں۔ وہ گزشتہ پیر کو فرانس کے دورے پرگئے تھے جہاں ان کی ملاقات صدر میکروں سے ہوئی تھی جن کا کرونا کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ اسپین کے وزیر اعظم کا ٹیسٹ گرچہ نگیٹیو آیا ہے تاہم احتیاطی تدابیر کے طور پر وہ قرنطینہ میں ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
موت کے لیے گھر کا انتخاب
جاپان میں شدید بیمار افراد کی اکثریت ہسپتال ہی میں مرنا پسند کرتی ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جو ہسپتال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے گھر میں مکمل تنہائی میں ہی موت سے جا ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
کتے کے ساتھ
جب میتسُورو نینُوما کو معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے بس موت کے منہ میں جانے والے ہیں، تو انہوں نے ہسپتال کی بجائے گھر میں مرنا پسند کیا۔ اس طرح انہیں اپنے پوتے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا اور رِن نامی اپنے کتے کے ساتھ بھی۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
اپنے گھر کی چار دیواری
69 سالہ میتسُورو کے سونے کے کمرے کی یہ چار دیواری رنگوں سے روشن ہے، یہ رنگ انہوں نے اپنے پوتے کے ساتھ بکھیرے۔ ایک فزیکل تھراپسٹ ان کے معائنے کو آتا ہے، مساج کرتا اور ان کی ٹانگوں کو جنبش دیتا ہے۔ وہ کئی ماہ سے بسترِ مرگ پر ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتال میں ڈیمینشیا مزید بگڑ گیا
یاسودو تویوکو ٹوکیو میں اپنی بیٹی کے ہاں رہ رہے ہیں۔ اس 95 سالہ مریضہ کو معدے کے سرطان اور ڈیمینشیا کا مرض لاحق ہے۔ ان کی بیٹی ہی ان کا خیال رکھتی ہے۔ یاسوڈو کو ان کی بیٹی ہسپتال سے گھر اس لیے لے آئیں، کیوں کہ انہیں لگا کہ ان کی والدہ ہسپتال میں کم زور ہو گئیں تھیں اور ان کا ڈیمینشیا کا مرض بگڑ گیا تھا۔ جاپان میں مریضوں کی گھر میں دیکھ بھال ایک غیرعمومی بات ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
طویل انتظار
ہر کوئی رضاکارانہ طور پر اپنی زندگی کے آخری چند ہفتے گھر پر رہنا پسند نہیں کرتا۔ کاتسو سایتو کو جب معلوم ہوا کہ انہیں لیکیومیا لاحق ہے، تو انہوں نے قریب المرگ مریضوں کے لیے مخصوص قیام گاہ (ہوسپیس) کا انتخاب کیا، مگر وہاں جگہ ملنے میں انہیں طویل انتظار کرنا پڑا۔ انہیں جب وہاں منتقل کیا گیا، تو وہ فقط دو ہی روز بعد انتقال کر گئے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں میں جگہ کا فقدان
ہسپتالوں اور قریب المرگ مریضوں کی قیام گاہوں (ہوسپیس) میں بستروں کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جاپان میں طویل العمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس وقت جاپان میں ہر چار میں سے ایک شخص 65 برس سے زائد عمر کا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق سن 2030 میں جاپانی ہسپتالوں کو قریب نصف ملین بستروں کی کمی کا سامنا ہو گا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں کے مہنگے کمرے
یاشوہیرو ساتو پیپھڑوں کے سرطان کے باعث انتقال کے قریب ہیں۔ وہ ہسپتال کے ایک انفرادی کمرے میں رہنا چاہتے ہیں مگر چوں کہ ریٹائرڈ افراد کمرے کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ہیلتھ انشورنس انفرادی کمروں کے لیے پیسے نہیں دیتی، وہ ٹوکیو میں ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
چلتے ڈاکٹر
فزیشن یو یاسوئی (دائیں) نے ایک موبائل کلینک قائم کر رکھا ہے، جو قریب المرگ افراد کو ان کے گھروں میں نگہداشت فراہم کرتا ہے۔ 2013ء میں قائم ہونے والا یہ کلینک اب تک پانچ سو افراد کو گھروں میں فوت ہونے والے افراد کی دیکھ بھال کر چکا ہے۔ یو یاسوئی کے مطابق زندگی کے آخری دنوں میں طبی نگہداشت بہت کارگر ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
موت تنہائی میں
یاسوئی کے چند مریض اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے خاندان یا دوست انہیں باقاعدگی سے دیکھنے آتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جنہیں کوئی ڈاکٹر یا نگہداشت کرنے والوں کے علاوہ کوئی دیکھنے نہیں آتا۔ ٹوکیو میں یاسوہیرو کا کوئی نہیں۔ وہ ٹوکیو کے اس فلیٹ میں مکمل طور پر تنہا ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
شاید بعد کی زندگی بہتر ہو
یاسوہیرو کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے کیوں کہ ’انہیں موت کے بعد کی بہتر زندگی درکار ہے‘۔ 13 ستمبر کو یوسوہیرو کی سانس بند ہو گئی تھی اور اس وقت ان کے پاس ان کے فلیٹ میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔