بارسلونا میں اتوار کو ایک دعائیہ یادگاری تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں دو دہشت گردانہ حملوں کے متاثرین کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا گیا۔ ادھر تحقیقاتی اداروں نے اپنی تفتیش کا رخ مراکش کے ایک امام کی طرف سے موڑ دیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بیس اگست بروز اتوار بتایا ہے کہ ہسپانوی شہر بارسلونا کے تاریخی چرچ سگرادا فیملیا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ایک خصوصی یادگاری تقریب میں شرکت کی، جس میں اسپین اور کامبرلز میں ہوئے حملوں میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی یاد تازہ کی گئی اور متاثرین کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا گیا۔ جمعرات 17 اگست کو بارسلونا حملے میں چودہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے جبکہ جمعے کی علی الصبح کامبرلز کے حملے میں ساتھ افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس یاد گاری تقریب میں ہسپانوی بادشاہ فلیپے اور وزیر اعظم ماریانو راخوئے کے علاوہ کئی اعلیٰ سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ اس موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
چرچ کے باہر اونچی عمارتوں میں ماہر نشانہ باز تعینات تھے جبکہ چرچ کے اردگرد سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری بھی موجود تھی۔
اتوار کی شام کو بارسلونا کے کیمپ ناؤ فٹ بال اسٹیڈیم میں ایک لاکھ افراد جمع ہونے کی توقع ہے، جو ہسپانوی فٹ بال لیگ لا لیگا کے رواں سیزن کے سلسلے میں ایف سی بارسلونا کے پہلے میچ سے قبل ایک منٹ کی خاموشی اختیار کریں گے۔
ہفتے کے دن ہسپانوی وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی کے پیچھے کارفرما دہشت گردی کے ایک مرکز کو تباہ کر دیا گیا۔ تاہم مقامی حکام نے اس حوالے سے انتہائی محتاط انداز اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ابھی تک واضح نہیں کہ بارسلونا کے شمال میں واقع الکنر نامی شہر میں قائم اسی مرکز سے ان حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
ادھر ہسپانوی پولیس بائیس سالہ مشتبہ حملہ آور یونس ابو یعقوب کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ بارسلونا حملے میں ملوث تھا۔ اس مشتبہ شخص کا تعلق مراکش سے بتایا گیا ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق اب پولیس نے ایک چھوٹے سے ٹاؤن ریپول کے ایک امام کی تلاش بھی شروع کر دی ہے، جس کے بارے میں یقین کیا جا رہا ہے کہ وہی ریپول میں نوجوان حملہ آوروں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے والا تھا۔
عبدالباقی الستی نامی اس امام مسجد کا تعلق بھی مراکش سے ہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ہفتے کے دن پولیس نے اس امام کے گھر پر چھاپہ بھی مارا۔ ایسا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ امام مسجد غالبا بدھ کے دن الکنر میں ایک گھر میں ہونے والے دھماکے میں مارا گیا تھا۔
تاہم پولیس تصدیق کی خاطر ڈی این اے نمونے جمع کر رہی ہے تاکہ اس حوالے سے کوئی باقاعدہ ثبوت حاصل کیا جا سکے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یہ امام مسجد جون میں اچانک غائب ہو گیا تھا اور شاید وہ واپس مراکش جا چکا ہے۔ تاہم اس حوالے سے کوئی مصدقہ معلومات میسر نہیں ہیں۔
یورپ میں دہشت گردانہ حملوں کا تسلسل
گزشتہ برسوں کے دوران مختلف یورپی شہروں کو دہشت گردانہ واقعات کا سامنا رہا ہے۔ تقریباً تمام ہی واقعات میں مسلم انتہا پسند ہی ملوث پائے گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/D. Ramos
اگست سن 2017،بارسلونا
ہسپانوی شہر بارسلونا کے علاقےلاس رامباس میں کیے گئے حملے میں کم از کم تیرہ ہلاک ہوئے ہیں۔ اس واقعے میں دہشت گرد نے اپنی وین کو پیدل چلنے والوں پر چڑھا دیا تھا۔
تصویر: Imago/E-Press Photo.com
مارچ اور جون سن 2017، لندن
برطانیہ کے دارالحکومت میں دو جون کو تین افراد نے ایک کار لندن پل پر پیدل چلنے والوں پر چڑھا دی بعد میں کار چلانے والوں نے چاقو سے حملے بھی کیے۔ لندن پولیس نے تین حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے سے قبل ایسے ہی ایک حملے میں چار افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ جون ہی میں ایک مسجد پر کیے گئے حملے میں ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Akmen
مئی سن 2017، مانچسٹر
برطانوی شہر مانچسٹر میں امریکی گلوکارہ آریانے گرانڈے کے کنسرٹ کے دوران کیے گئے خود کش بمبار کے حملے میں کم از کم 22 انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل تھے۔ ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/R. Boyce
اپریل سن 2017، اسٹاک ہولم
سویڈن کے دارالحکومت ایک ٹرک پیدل چلنے والوں پر چڑھانے کے واقعے میں پانچ افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں ایک 39 برس کے ازبک باشندے کو حراست میں لیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ringstrom
فروری، مارچ، اپریل سن 2017، پیرس
رواں برس کے ان مہینوں میں فرانسیسی دارالحکومت میں مختلف دہشت گردانہ حملوں کی کوشش کی گئی۔ کوئی بہت بڑا جانی نقصان نہیں ہوا سوائے ایک واقعے میں ایک پولیس افسر مارا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Paris
دسمبر سن 2016، برلن
جرمنی کے دارالحکومت برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ پر کیے گئے حملے میں ایک درجن افراد موت کا نوالہ بن گئے تھے۔ حملہ آور تیونس کا باشندہ تھا اور اُس کو اطالوی شہر میلان کے نواح میں پولیس مقابلے میں مار دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/S. Loos
جولائی سن 2016، نیس
فرانس کے ساحلی شہر نیس میں پیدل چلنے والوں کے پرہجوم راستے پر ایک دہشت گرد نے ٹرک کو چڑھا دیا۔ اس ہولناک حملے میں 86 افراد مارے گئے تھے۔ اسلامک اسٹیٹ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Reuters/E. Gaillard
مارچ سن 2016، برسلز
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز کے میٹرو ریلوے اسٹیشن پر کیے گئے خودکش حملوں میں کم از کم 32 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
جنوری سن 2016، استنبول
ترکی کے تاریخی شہر استنبول کے نائٹ کلب پر کیے گئے حملے میں 35 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ ان ہلاک شدگان میں بارہ جرمن شہری تھے۔ حملہ آور کا تعلق اسلامک اسٹیٹ سے بتایا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/Depo Photos
نومبر سن 2015، پیرس
پیرس میں کیے منظم دہشت گردانہ حملوں میں 130 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔ ان حملوں کے دوران ایک میوزک کنسرٹ اور مختلف ریسٹورانٹوں پر حملے کیے گئے تھے۔ حملہ آور جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے حامی تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Guay
فروری سن 2015، کوپن ہیگن
ڈنمارک کے دارالحکومت میں واقع ایک کیفے پر ایک نوجوان کی فائرنگ سے ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی۔ اسی حملہ آور نے بعد میں ایک یہودی عبادت گاہ کے محافظ کو بھی ہلاک کیا تھا۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
جنوری سن 2015، پیرس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ایک میگزین کے دفتر اور یہودیوں کی اشیائے ضرورت کی مارکیٹ پر کیے گئے حملوں میں 17 افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Feferberg
مئی سن 2014، برسلز
فرانس سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان حملہ آور نے بیلجیم کے یہودی میوزیم پر فائرنگ کر کے چار افراد کو موت کی گھاٹ اتار دیا۔ حملہ آور ایک خود ساختہ جہادی تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/G. Gobet
جولائی سن 2005، لندن
چار برطانوی مسلمانوں نے لندن میں زیر زمین چلنے والے ٹرام کو مختلف مقامات پر نشانہ بنایا۔ ان بم حملوں میں 56 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: dpa
مارچ سن 2004، میڈرڈ
منظم بم حملوں سے ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ کے ریلوے اسٹیشن پر 191 انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ ان بموں کے پھٹنے سے پندرہ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔