اسپین: طبی امداد سے محروم مہاجرین کی شرح اموات بڑھ گئی
15 مئی 2018
ایک نئے جائزے کے مطابق اسپین میں صحت سے متعلق اصلاحات کے متعارف ہونے کے بعد طبی سہولیات نہ ملنے کے سبب غیر قانونی مہاجرین کی اموات میں پندرہ فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ اصلاحات سن دو ہزار بارہ میں متعارف کرائی گئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
اشتہار
یورپ میں مہاجرین سے متعلق خبریں فراہم کرنے والے ادارے انفو مائیگرنٹس کے مطابق اس نئے مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ اسپین میں سن 2012 میں صحت کے شعبے میں متعارف کرائی گئی نئی اصلاحات نے ایسے تارکین وطن کو طبی سہولت سے محروم کر دیا ہے جن کے پاس شناختی دستاویزات نہیں ہیں۔ تحقیق کے مطابق یہ اصلاحات بیماری کی صورت میں طبی امداد نہ ملنے کے باعث غیر قانونی مہاجرین کی اموات میں اضافے کی ذمہ دار ہیں۔
اس تحقیق کو بارسلونا یونیورسٹی کے اکنامک اسٹیٹیوٹ اور پوپیو فابرا یونیورسٹی کے صحت اور اقتصادیات کے ریسرچ سینٹر کی جانب سے مشترکہ طور پر عمل میں لایا گیا۔
مطالعے میں جانچ کی گئی کہ سن 2009 سے سن 2012 کے مقابلے میں سن 2015 تک کے عرصے میں شرح اموات کے حوالے سے کیا تبدیلی دیکھنے میں آئی۔
ریسرچ سے پتہ چلا کہ سن 2012 میں صحت کے شعبے میں طبی اصلاحات کے نافذ ہونے کے بعد سے ہر سال ستّر غیر قانونی مہاجرین ہلاک ہوئے۔ تحقیق کاروں کے مطابق سن 2012 تک مقامی باشندوں اور بغیر شناختی دستاویزات کے مہاجرین کی اموات کی شرح یکساں تھی لیکن طبی اصلاحات کے قانون نے اس طبقے پر فوری اثر ڈالا جسے طبی سہولیات سے محروم کر دیا گیا تھا۔
اس جائزے کے تحقیق نگاروں کے مطابق،’’ مطالعے کے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اصلاحات کے نفاذ کے بعد ان کے منفی اثرات بڑھتے چلے گئے اور سن 2015 میں اسپین میں غیر قانونی طور پر مقیم پناہ گزینوں کی شرح اموات میں بائیس اعشاریہ چھ فیصد تک اضافہ ہو گیا۔‘‘
اس نئی تحقیق میں بنیادی طور پر دو عوامل پر بات کی گئی ہے۔ اوّل یہ کہ ان مہاجرین کو جان لیوا بیماریوں میں بھی طبی امداد تک رسائی نہیں دی گئی اور دوسرے یہ کہ مہلک امراض کی ابتدائی تشخیص بھی ممکن نہیں ہونے دی گئی۔
انفو مائیگرنٹس
’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/P. Gorondi
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Bozon
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘