یورپی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس کے مطابق اسپین کے ذریعے یورپی یونین میں داخل ہونے والے غیرقانونی تارکین وطن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ تارکین وطن کے لیے یورپ پہنچنے کا ایک نیا اور اہم راستہ بنتا جا رہا ہے۔
اشتہار
فرنٹیکس کے سربراہ فیبریک لیگاری نے اسپین پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے یہ معاملہ انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ ان کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع سامنے آیا ہے کہ جب یورپی کمیشن یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اس ایجنسی کو مزید محافظ فراہم کرنے کے منصوبے پر غور کر رہا ہے۔
فرنٹیکس کے سربراہ نے کہا کہ جون میں قریب چھ ہزار تارکین وطن مراکش سے بذریعہ مغربی بحیرہٴ روم اسپین پہنچے۔
جرمن اخبار ڈی ویلٹ ام زونٹاگ سے بات چیت کرتے ہوئے لیگاری نے خبردار کیا کہ یہ راستہ جلد ہی غیرقانونی طور پر یورپی یونین پہنچنے کے خواہش مند افراد کے لیے اہم ترین روٹ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر تارکین وطن کی اسپین آمد کر راستہ نہ روکا گیا تو، اس راستے سے یورپی یونین پہنچنے والے افراد کی تعداد وسطی بحیرہ روم کے ذریعے لیبیا سے اٹلی اور مشرقی بحیرہء روم کے ذریعے ترکی سے یونان اور بلقان ریاستوں سے یورپی یونین داخل ہونے والے مہاجرین کے مقابلے میں آگے بڑھ جائے گی۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
انہوں نے کہا، ’’اگر آپ مجھ سے میرے لیے سب سے پریشان کن صورت حال پوچھیں، تو میں کہوں گا اسپین۔‘‘
گو کہ سن 2015 کے مقابلے میں یورپی یونین پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہے، تاہم اب بھی ہزاروں افراد یورپ پہنچ رہے ہیں۔ ان مہاجرین کی یورپ آمد کے نتیجے میں یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے درمیان بھی سیاسی اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں، جب کہ یہی معاملہ یورپی یونین میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بھی بنا ہے۔
یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود ینکر نے جمعے کے روز کہا تھا کہ رواں برس ستمبر تک یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کی حفاظت کے لیے فرنٹیکس کو مزید افرادی قوت مہیا کرنے سے متعلق ایک منصوبے پر اتفاق کر لیا جائے گا۔