اسپین میں تارکین وطن: وعدے بہترین نوکری کے، مشقت کھیتوں میں
5 جنوری 2023
ہسپانوی پولیس نے غیر قانونی تارکین وطن کا منظم استحصال کرنے والے ایک بڑے گروہ کے رکن بیسیوں ملزمان گرفتار کر لیے۔ اسپین میں بہت سے پاکستانیوں سمیت ہزارہا جنوبی ایشیائی اور افریقی تارکین وطن غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔
اشتہار
ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں پولیس نے بتایا کہ یہ کارروائی ایک ایسے بہت بڑے لیکن منظم گروہ کے خلاف کی گئی، جو ملک میں غیر قانونی طور پر موجود تارکین وطن کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا بڑے مربوط طریقے سے مالی استحصال کرتا تھا۔
پولیس کے مطابق اس گروہ کے رکن 43 ایسے مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا، جو جزیرہ نما آئبیریا کے اس ملک میں تارکین وطن کو بہترین مستقبل اور شاندار روزگار کے سبز خواب دکھا کر لاکھوں یورو ہتھیا لیتے تھے۔
یہ دھوکہ دہی ایسے تارکین وطن سے کی جاتی تھی جو زیادہ تر مراکش سے غیر محفوظ سمندری راستہ اختیار کرتے ہوئے اسپین پہنچتے تھے۔ لیکن ان متاثرہ تارکین وطن میں دیگر راستوں سے اسپین پہنچنے والے اور ایشیائی اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن بھی شامل ہوتے تھے۔
اشتہار
بہترین روزگار کے جعلی معاہدے
میڈرڈ میں پولیس نے بتایا کہ اس گروہ کے ارکان ایسے تارکین وطن سے فی کس تین تین ہزار یورو تک لے کر ان سے وعدے یہ کرتے تھے کہ انہیں شاندار روزگار دلایا جائے گا اور دکھاوے کے لیے وہ ان سے روزگار کے جعلی معاہدوں پر دستخط بھی کرا لیتے تھے۔
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔
بعد ازاں لیکن ان تارکین وطن سے جو کام کرایا جاتا تھا، وہ کھیتوں میں زرعی مزدوروں کے طور پر لی جانے والی مشقت تھی۔ اس مشقت کا معاوضہ بھی متعلقہ تارکین وطن کے اسپین میں غیر قانونی طور پر مقیم ہونے کی وجہ سے انتہائی کم ہوتا تھا۔
اب تک کی جانے والی چھان بین سے پتہ چلا ہے کہ اس گروہ کے ارکان اپنا شکار بننے والے تارکین وطن سے غلاموں جیسی مشقت لیے جانے کے شریک مجرم تھے اور اکثر ایسے غیر ملکیوں کو 'غیر انسانی حالات‘ میں زندہ رہنا پڑتا تھا۔
اس گروہ کے زیر حراست ارکان سے کی گئی ابتدائی پوچھ گچھ کے نتیجے میں زرعی شعبے کے کم از کم سات ایسے بڑے ہسپانوی پیداواری اداروں کا پتہ بھی چلا، جو تارکین وطن کے استحصال کے اس نظام کا حصہ تھے اور غیر ملکیوں کی محنت سے مالی فائدہ اٹھاتے تھے۔
گزشتہ برس بحیرہٴ روم میں چالیس ہزار تارکینِ وطن کو ساحلی پولیس نے نہیں بلکہ اُن تجارتی بحری جہازوں نے بچایا، جو یورپی یونین کا امدادی مشن مارے نوسٹرم ختم ہونے کے بعد سے باقاعدہ تلاش کر کے تارکینِ وطن کی جانیں بچاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
شکر ہے، بچ گئے
ربڑ کی یہ کشتی اور اِس میں سوار تارکینِ وطن عنقریب ’او او سی جیگوار‘ نامی اس پرائیویٹ بحری تجارتی جہاز کی حفاظت میں ہوں گے، جو عام طور پر بحیرہٴ روم میں واقع تیل کے کنووں تک اَشیائے ضرورت پہنچاتا ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
طوفانی لہروں میں سہارا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ’جیگوار‘ جیسے بحری جہازوں کو سمندر کے بیچوں بیچ پھنسے ہوئے تارکینِ وطن کو بچانا پڑتا ہے۔ یورپی یونین کے امدادی مشن ’ٹریٹون‘ کے تحت محض چند ایک امدادی بحری جہاز ہی اس کام میں مصروف ہیں اور وہ بھی اٹلی کے ساحلوں سے زیادہ سے زیادہ چھپن کلومیٹر تک گشت کرتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
ایک اور بے سہارا کشتی
جرمن جہاز راں کرسٹوفر اوپیلوک کے دو بحری جہاز، جو عام طور پر سمندر میں بنے آئل پلیٹ فارمز کو اَشیائے ضرورت فراہم کرتے ہیں، گزشتہ سال دسمبر سے لے کر اب تک پندرہ سو تارکینِ وطن کی جانیں بچا چکے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی تھے، جنہیں وہ نہ بچا سکے۔ ’جیگوار‘ نامی جہاز کا اس الٹی ہوئی کشتی سے سامنا اپریل کے وسط میں ہوا تھا۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
اب سامان میں کمبل بھی
اوپیلوک کے بحری جہاز عام طور پر مالٹا میں لنگر اندز ہوتے ہیں اور وہاں سے لیبیا کے ساحلوں کے قریب واقع آئل پلیٹ فارمز کو ہر قسم کا مطلوبہ سامان پہنچاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جہاز اپنے ساتھ اضافی طور پر اَشیائے خوراک، کمبل اور ادویات بھی رکھنے لگے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
سلامتی کی منزل ابھی دور
’جیگوار‘ کے عرشے پر پہنچ جانے کا مطلب بھی مکمل سلامتی کی منزل تک پہنچ جانا نہیں ہوتا۔ جہاز راں اوپیلوک کے مطابق ’بہت سے تارکینِ وطن، جنہیں ہم پانی سے نکالتے ہیں، اُن کے جسم سرد پانی کی وجہ سے اتنے زیادہ متاثر ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ عرشے پر پہنچنے کے چند منٹ کے اندر اندر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
غرقابی سے کچھ پہلے
تجارتی بحری جہازوں کے کپتان اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ سمندر میں پھنسے ہوئے افراد کی مدد کریں اور اُن کی جان بچائیں۔ ایسے میں تارکینِ وطن کو لانے والے بحری جہاز جان بوجھ کر اُن روٹس پر سفر کرتے ہیں، جنہیں تجارتی بحری جہاز استعمال کرتے ہیں۔ تارکینِ وطن سے بھری ہوئی یہ کشتی بس غرق ہونے ہی والی ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
امدادی مشن میں ایک ایک لمحہ قیمتی
... اور کشتی غرق ہونے کے چند ہی لمحے بعد تارکینِ وطن کھلے سمندر کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر ’جیگوار‘ بحری جہاز ڈوبتے ہوئے ان انسانوں کی جانیں بچانے اور اٹلی کی ساحلی پولیس کو مطلع کرنے کی کوشش کرے گا۔ کبھی کبھی ایک امدادی مشن مکمل ہونے میں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
7 تصاویر1 | 7
یورپ پہنچنے کے لیے تارکین وطن کی اہم ترین منزل
اسپن اپنے جغرافیے کی وجہ سے غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کے خواہش مند تارکین وطن کی اہم ترین منزل ہے۔ وہاں ایسے زیادہ تر تارکین وطن شمالی افریقہ میں مراکش سے غیر محفوظ کشتیوں کے ذریعے پہنچتے ہیں۔
لیکن یہ تارکین وطن سب ہی مراکشی یا افریقی شہری نہیں ہوتے بلکہ ان میں کافی بڑی تعداد میں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے شہریوں کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک کے باشندے بھی شامل ہوتے ہیں، جو شمالی افریقہ کے راستے یورپ پہنچنے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
میڈرڈ میں حکام کے مطابق 2022ء میں شمالی افریقہ سے 31 ہزار سے زائد تارکین وطن غیر قانونی طور پر اسپین میں داخل ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر مراکش سے کشتیوں کے ذریعے اسپین پہنچے تھے۔
اسپین میں پاکستانی تارکین وطن کی بھی ایک بڑی تعداد مقیم ہے، جن میں ایسے باشندے بھی شامل ہیں، جن کے پاس وہاں قیام کے قانونی اجازت نامے نہیں ہیں۔
م م / ش ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)
اسپین: کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرنے والے پاکستانی