اسپین میں کورونا کے مریض ہسپتالوں سے بھاگنا شروع ہو گئے
25 مارچ 2020
اسپین میں کورونا وائرس تقریباﹰ تین ہزار افراد کی جان لے چکا ہے۔ اب وہاں بہت سے مریض ہسپتالوں سے فرار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ملکی پولیس کے سربراہ کے مطابق ان مفرور مریضوں نے حکام کو نئی ’غیر ضروری‘ مشکل میں ڈال دیا ہے۔
اشتہار
اسپین کی نیشنل پولیس کے سربراہ خوزے آنجیل گونزالیس نے میڈرڈ میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملک کے کئی ہسپتالوں سے اب تک کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کوِوڈ انیس کے مریضوں کے فرار کے واقعات کی اطلاعات مل چکی ہیں۔
انہوں نے کہا، ''ان مریضوں کے فرار کے واقعات نے ملکی سکیورٹی حکام کو ایک ایسے 'بہت بڑے لیکن قطعی غیر ضروری‘ کام میں ڈال دیا ہے، جس کا مقصد ایسے 'مفرور‘ مریضوں کو تلاش کر کے دوبارہ ہسپتالوں میں پہنچانا ہے۔
خوزے آنجیل گونزالیس نے بتایا کہ منگل چوبیس مارچ کو بھی ملکی دارالحکومت میڈرڈ کے نواح میں لیگانیس اور مشرقی اسپین کے ساحلی علاقے کے قصبے بَینی دورم سے ایسے دو واقعات کی اطلاعات ملیں، جن میں نہ صرف کورونا وائرس کے مریض ہسپتالوں سے فرار ہو گئے بلکہ بہت سے 'غیر ذمے دار شہری‘ سول کرفیو کے تحت گھروں سے نکلنے پر پابندی کی خلاف ورزیوں کے مرتکب بھی ہوئے۔
'انتہائی غیر ذمے داری اور سماجی عدم یکجہتی‘
اسپین کی نیشنل پولیس کے سربراہ کے بقول گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں اسی کے قریب ایسے افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا، جو اپنے گھروں میں رہنے کے بجائے 'انتہائی غیر ذمے داری اور سماجی عدم یکجہتی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرعام گھوم پھر رہے تھے۔
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن
نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر سماجی میل ملاپ سے اجتناب اور سفری پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں سیاحت کے ليے مشہور بڑے بڑے شہر بھی سنسان ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/S. Babbar
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
تصویر: AFP/T. Akmen
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Bruno
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
تصویر: Imago Images/Zuma/E. Inetti
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Bonilla
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: AFP/H. Neubauer
9 تصاویر1 | 9
اسپین جنوبی یورپ کا ایک ایسا ملک ہے، جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے اب تک تقریباﹰ تین ہزار افراد ہلاک اور بیالیس ہزار سے زائد بیمار ہو چکے ہیں۔ کووِڈ انیس نامی بیماری کے ہاتھوں شہری ہلاکتوں کی وجہ سے اسپین پوری دنیا میں اس وقت اٹلی اور چین کے بعد تیسرے اور یورپ میں دوسرے نمبر پر ہے۔
میڈرڈ میں ملکی حکومت نے پندرہ مارچ سے اسپین کے مجموعی طور پر سینتالیس ملین شہریوں کے کسی بہت ضروری وجہ کے بغیر گھر سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
آج بدھ پچیس مارچ کو ہسپانوی پارلیمان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم پیدرو سانچیز کی حکومت کی طرف سے پیش کردہ ایک ایسی قرارداد پر رائے شماری بھی ہو رہی ہے، جس میں ملک میں نافذ ایمرجنسی میں دو ہفتے کی توسیع کی سفارش کی گئی ہے۔
پندرہ مارچ کو نافذ کی گئی ایمرجنسی بھی دو ہفتے کے لیے لگائی گئی تھی اور آج اگر پارلیمان نے اس ہنگامی حالت کی مدت میں مزید دو ہفتے کی توسیع کر دی، تو عام شہریوں کے کسی بہت ضروری کام کے علاوہ اپنے گھروں سے نکلنے پر گیارہ اپریل تک پابندی رہے گی۔
م م ، ع ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
کاتالان، باسک اور گالیشیائی: اسپین کی متعدد، متنوع قومیتیں
اسپین کئی قومیتوں کی ثقافتوں اور زبانوں کا ملک تصور کیا جاتا ہے۔ ایک ہسپانوی قوم کاتالان اس وقت مرکزی حکومت کے ساتھ رسہ کشی میں مصروف ہے۔ کاتالونیا میں علیحدگی پسندی کی بھی تحریک پائی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Nazca
رومن صوبہ
جزیرہ نما آئبیریا میں کئی صوبوں کے ناموں کا تعلق رومن دور سے ہے۔ جدید اسپین کثیرالجہتی ثقافتوں کا حامل ملک ہے۔ یہ ماضی میں کبھی بھی موجودہ شکل میں نہیں تھا۔ وہاں پہلی بار ریاستی سطح پر حکمرانی کا دور سن 1702 میں شروع ہونے والی بارہ سالہ جنگ کے بعد شروع ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Prisma Archivo
مختلف علاقوں والی قوم
ہسپانوی قوم پسندی کئی علاقوں میں شدت سے پائی جاتی ہے۔ آراگان اور کئی دیگر سابقہ بادشاہتیں خود کو ہسپانوی قومی ریاست کا حصہ ہی خیال کرتی تھیں۔ استوریاس نسل کی آبادی کی اپنی زبان ہے لیکن یہ خطہ فخر محسوس کرتا ہے کہ اس نے اسپین کو عرب اور بربر یا مُور حکمرانوں سے واپس لینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ کاتالونیا میں آزادی کا متنازعہ ریفرنڈم بھی میڈرڈ میں قوم پسندانہ سوچ ہی کا مظہر تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Soriano
خون آلُود انگلیاں
کاتالونیا کی آزادی کی اب تک نامکمل جدوجہد کئی سالوں پر محیط ہے۔ اس علاقے کا ’سینی ایرا‘ کہلانے والا پرچم آراگان بادشاہت کے جھنڈے جیسا ہے۔ اس جھنڈے کے ڈیزائن کو ماضی کے جنگی سردار ولفریڈ کی ’چار خون آلود انگلیوں‘ کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ کاتالونیا کی خود مختاری سے متعلقہ قانون کو سن 2006 میں ایک عدالتی فیصلے نے محدود کر دیا تھا، جس کے بعد وہاں آزادی کی تحریک تقویت پکڑ گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/M. Oesterle
ویلینسیا کی قوم پرستی
ویلینسیا میں قوم پرستی کا تعلق انیسویں صدی میں کاتالان زبان و ثقافت کے احیاء کی تحریک سے جڑا ہوا ہے۔ محققین ویلینسیا میں قوم پرستی کو کاتالان رومانوی تحریک کا متبادل قرار دیتے ہیں۔ اسی علاقے میں مشہور ہسپانوی تہوار ’ٹوماٹینا‘ بھی منایا جاتا ہے، جس میں ہزاروں افراد ایک دوسرے کے خلاف ’ٹماٹروں سے جدل‘ کرتے ہیں۔ ویلینسیا کی علاقائی پارلیمان میں قوم پرستوں کو چار فیصد کے قریب نمائندگی حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/Gtresonline
دیگر کاتالان علاقے
اسپین کے کئی علاقوں میں کاتالان زبان کے مختلف لہجے بولے جاتے ہیں۔ ان میں جزائر بالیار، مایورکا، ایبِٹسا، مینورکا اور فورمَینٹیرا شامل ہیں۔ ویلینسیا کے مقابلے میں بعض جزائر میں کاتالان قوم پرستانہ جذبات غیر معمولی حد تک زیادہ ہیں۔ کاتالونیا کی پٹی لا فرانخا میں آزادی کی تحریک آج تک زور نہیں پکڑ سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Seeger
باسک علاقہ
کاتالونیا کی آزادی کی تحریک کے مقابلے میں باسک علیحدگی پسندوں کے مسلح گروپ ایٹا (ETA) کے دہشت گردانہ حملے ماضی میں کہیں زیادہ خبروں میں رہے۔ باسک قوم پرست فرانس، اسپین اور ناوارے کے باسک علاقے کو اپنا وطن اور قوم سمجھتے ہیں۔ پہاں کی ایک تہائی آبادی آزادی پسند ہے جبکہ عوام کی اکثریت خود مختاری چاہتی ہے۔ اس علاقے میں سن 2008 کے ایک ریفرنڈم کو عدالت نے قبل از انعقاد ہی غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Rivas
گالیشیا کی جدوجہد
ہسپانوی ڈکٹیٹر فرانچیسکو فرانکو گالیشیا ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ کاتالونیا اور باسک علاقوں کے بعد گالیشیا میں علیحدگی پسندی کی تحریک سب سے مضبوط ہے۔ اسپین کی مرکزی سیاسی جماعتوں میں بھی گالیشیائی قوم پرستی کی جھلک نظر آتی ہے۔ اسی لیے گالیشیا میں مقامی قوم پرست پارٹیاں مقابلتاﹰ کم مقبول ہیں۔
جزیرہ نما آئبیریا میں عربی زبان کے لفظ الاندلس کے نام والا علاقہ وہ ہے، جہاں عرب اور بربر نسل کے حکمرانوں نے 750 برس سے زائد عرصے تک حکومت کی تھی۔ یہ دور عرف عام میں ’مُوروں کا عہد‘ کہلاتا ہے۔ اس خطے پر مسیحی قبضے کے بعد اسے الاندلُس سے اندلُوسیا بنا دیا گیا۔ ڈکٹیٹر فرانکو کے مرنے کے اندلُوسیا کی عوام نے اپنی خود مختاری کے حق میں ووٹ بھی دیا تھا لیکن وہاں آزادی کی تحریک میں کوئی جان نہیں ہے۔