اسپین نے بچوں کو کھلی ہوا میں سانس لینے کی اجازت دے دی
26 اپریل 2020
گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران پہلی مرتبہ ہسپانوی بچوں کو اس بات کی اجازت ملی ہے کہ وہ روزانہ ایک گھنٹے کے لیے گھر سے باہر جا سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Quicler
اشتہار
- کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی کی کُل تعداد: 2,912,421
- کووڈ انیس کے سبب اموات کی تعداد: 203,432
- سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا میں انفیکشنز کی تعداد: 939,249
- امریکا میں کووڈ انیس کے سبب اموات کی تعداد: 53,934
نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں اعداد وشمار مرتب کرنے والے جانز ہاپکنز کورونا وائرس ریسورس سینٹر کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس کی انفیکشن کا شکار ہونے والوں کی تعداد 29 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ کووڈ انیس کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دو لاکھ تین ہزار سے بڑھ گئی ہے۔
کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا ہے جہاں اس انفیکشن کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد نو لاکھ 40 ہزار کے قریب ہے جبکہ یہ وائرس اب تک وہاں 54 ہزار کے قریب انسانی جانیں لے چکا ہے۔
اسپین میں نے بچوں کو کھلی ہوا میں سانس لینے کی اجازت دے دی
گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران پہلی مرتبہ ہسپانوی بچوں کو اس بات کی اجازت ملی ہے کہ وہ روزانہ ایک گھنٹے کے لیے گھر سے باہر جا سکتے ہیں۔ یہ پیشرفت وہاں کورونا وائرس کے نئے کیسز میں کمی کے بعد سامنے آئی ہے۔
اسپین میں کورونا وائرس کے سبب اموات کی روزانہ تعداد آج اتوار کو 288 رہی۔ یہ 20 مارچ کے بعد سے کسی ایک دن میں کووڈ انیس کے سبب ہونے والی سب سے کم اموات ہیں۔ ہفتے کو یہ تعداد 378 تھی۔ اسپین میں اس مہلک مرض کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی کُل تعداد 22,902 ہو گئی ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا، آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
مئی کے وسط تک کورونا وائرس کے متاثرين ساڑھے چار ملين سے متجاوز ہيں۔ انفيکشنز ميں مسلسل اضافے کے باوجود دنيا کے کئی حصوں ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں بھی جاری ہيں۔ يہ وائرس کيسے اور کب شروع ہوا اور آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
تصویر: Reuters/Y. Duong
نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز
اکتيس دسمبر سن 2019 کو چين ميں ووہان کے طبی حکام نے باقاعدہ تصديق کی کہ نمونيہ کی طرز کے ايک نئے وائرس کے درجنوں مريض زير علاج ہيں۔ اس وقت تک ايسے شواہد موجود نہ تھے کہ يہ وائرس انسانوں سے انسانوں ميں منتقل ہوتا ہے۔ چند دن بعد چينی محققين نے ايک نئے وائرس کی تصديق کر دی۔
تصویر: AFP
وائرس سے پہلی موت
گيارہ جنوری سن 2020 کو چينی حکام نے نئے وائرس کے باعث ہونے والی بيماری کے سبب پہلی ہلاکت کی اطلاع دی۔ مرنے والا اکسٹھ سالہ شخص اکثر ووہان کی اس مارکيٹ جايا کرتا تھا، جس سے بعد ازاں وائرس کے پھيلاؤ کو جوڑا جاتا رہا ہے۔ يہ پيش رفت چين ميں اس وقت رونما ہوئی جب سالانہ چھٹيوں کے ليے لاکھوں لوگ اندرون ملک سفر کرتے ہيں۔
يہ تصويو سيول کی ہے، جس ميں ديکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ماسک خريدنے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ رواں سال جنوری کے وسط ميں عالمی ادارہ صحت نے اس بارے ميں پہلی رپورٹ جاری کی اور بيس جنوری کو جاپان، جنوبی کوريا اور تھائی لينڈ ميں نئے وائرس کے اولين کيسز کی تصديق ہوئی۔ اگلے ہی دن ووہان سے امريکا لوٹنے والے ايک شخص ميں وائرس کی تشخيص ہوگئی اور يوں اکيس جنوری کو امريکا ميں بھی پہلا کيس سامنے آ گيا۔
تصویر: Reuters/K. Hong-Ji
ووہان کی مکمل بندش
گيارہ ملين کی آبادی والے شہر ووہان کو تيئس جنوری کو بند کر ديا گيا۔ شہر کے اندر اور باہر جانے کے تمام ذرائع بشمول ہوائی جہاز، کشتياں، بسيں معطل کر ديے گئے۔ نيا وائرس اس وقت تک تيئس افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: AFP/H. Retamal
گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی
چين ميں ہزاروں نئے کيسز سامنے آنے کے بعد تيس جنوری کے روز عالمی ادارہ صحت نے صورت حال کو ’گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی‘ قرار دے ديا۔ دو فروری کو چين سے باہر کسی ملک ميں نئے کورونا وائرس کے باعث کسی ایک شخص کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ مرنے والا چواليس سالہ فلپائنی شخص تھا۔ چين ميں اس وقت تک ہلاکتوں کی تعداد 360 تھی۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Hayward
’کووڈ انيس‘ کا جنم
عالمی ادارہ صحت نے گيارہ فروری کو نئے کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پھيپھڑوں کی بيماری کا نام ’کووڈ انيس‘ بتایا۔ بارہ فروری تک يہ وائرس چين ميں گيارہ سو سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا جبکہ متاثرين ساڑھے چواليس ہزار سے زائد تھے۔ اس وقت تک چوبيس ملکوں ميں نئے وائرس کی تصديق ہو چکی تھی۔
تصویر: AFP/A. Hasan
يورپ ميں پہلی ہلاکت
چودہ فروری کو فرانس ميں ايک اسی سالہ چينی سياح جان کی بازی ہار گيا۔ يہ ايشيا سے باہر اور يورپی بر اعظم ميں کووڈ انيس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ چين ميں اس وقت ہلاکتيں ڈيڑھ ہزار سے متجاوز تھیں، جن کی اکثريت صوبہ ہوبے ميں ہی ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M. Di Lauro
پاکستان ميں اولين کيس
پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کا اولين کيس چھبيس فروری کو سامنے آيا۔ ايران سے کراچی لوٹنے والے ايک طالب علم ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔ اٹھارہ مارچ تک ملک کے چاروں صوبوں ميں کيسز سامنے آ چکے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan
کورونا کا دنيا بھر ميں تيزی سے پھيلاؤ
آئندہ دنوں ميں وائرس تيزی سے پھيلا اور مشرق وسطی، لاطينی امريکا و ديگر کئی خطوں ميں اولين کيسز سامنے آتے گئے۔ اٹھائيس فروری تک نيا کورونا وائرس اٹلی ميں آٹھ سو افراد کو متاثر کر چکا تھا اور يورپ ميں بڑی تيزی سے پھيل رہا تھا۔ اگلے دن يعنی انتيس فروری کو امريکا ميں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
يورپ اور امريکا کے دروازے بند
امريکی صدر نے گيارہ مارچ کو يورپ سے تمام تر پروازيں رکوا ديں اور پھر تيرہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر ديا۔ بعد ازاں سترہ مارچ کو فرانس نے ملک گير سطح پر لاک ڈاون نافذ کر ديا اور يورپی يونين نے بلاک سے باہر کے تمام مسافروں کے ليے يورپ ميں داخلہ بند کر ديا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Morrisard
متاثرين کی تعداد ايک ملين سے متجاوز
دو اپريل تک دنيا کے 171 ممالک ميں نئے کورونا وائرس کی تصديق ہو چکی تھی اور متاثرين کی تعداد ايک ملين سے زائد تھی۔ اس وقت تک پوری دنيا ميں اکاون ہزار افراد کووڈ انيس کے باعث ہلاک ہو چکے تھے۔ دس اپريل تک يہ وائرس دنيا بھر ميں ايک لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/xim.gs
ہلاکتيں لگ بھگ دو لاکھ، متاثرين اٹھائيس لاکھ
بائيس اپريل تک متاثرين کی تعداد ڈھائی ملين تک پہنچ چکی تھی۔ پچيس اپريل کو کووِڈ انیس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ ستانوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی اٹھائیس لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ عالمی سطح پر اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد سات لاکھ پچیانوے ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
متاثرين ساڑھے چار ملين سے اور ہلاک شدگان تين لاکھ سے متجاوز
مئی کے وسط تک نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ساڑھے چار ملين سے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد تين لاکھ سے متجاوز ہے۔ امريکا ساڑھے چودہ لاکھ متاثرين اور قريب ستاسی ہزار اموات کے ساتھ سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ متاثرين کی تعداد کے معاملے ميں بھارت نے چين پر سولہ مئی کو سبقت حاصل کر لی۔ بھارت ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی تعداد تقريباً چھياسی ہزار ہے جبکہ ڈھائی ہزار سے زيادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/J. Cabezas
بنڈس ليگا پھر سے شروع، شائقين غائب
سولہ مئی سے جرمن قومی فٹ بال ليگ بنڈس ليگا کے ميچز شروع ہو رہے ہيں۔ يورپی سطح پر بنڈس ليگا پہلی قومی ليگ ہے، جس کے ميچز کئی ہفتوں کی معطلی کے بعد دوبارہ شروع ہو رہے ہيں۔ البتہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدايات کے مطابق شائقين کو اسٹيڈيمز کے اندر موجود ہونے کی اجازت نہيں ہے۔ حکام نے شائقين کو خبردار کيا ہے کہ اگر اسٹيڈيمز کے باہر شائقين مجمے کی صورت ميں جمع ہوئے، تو ميچز منسوخ کيے جا سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
يورپ بھر ميں پابنديوں ميں نرمياں جاری
دو مئی کو اسپين کے مشہور بارسلونا بيچ کو عوام کے ليے کھول ديا گيا۔ سولہ مئی سے فرانس اور اٹلی ميں بھی سمندر کنارے تقريحی مقامات لوگوں کے ليے کھول ديے گئے ہيں۔ يورپ کے کئی ممالک ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں جاری ہيں اور بلاک کی کوشش ہے کہ جون کے وسط تک تمام تر سرحدی بنشيں بھی ختم ہوں اور يورپ ميں داخلی سطح پر سياحت شروع ہو سکے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/X. Bonilla
15 تصاویر1 | 15
امریکا اور اٹلی کے بعد کووڈ انیس کے سبب سب سے زیادہ اموات اسپین میں ہی ہوئی ہیں تاہم اب اس ملک نے 14 اپریل سے جاری لاک ڈاؤن میں نرمی کے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
اب تک محض بالغ لوگوں کو گھر سے باہر جانے کی اجازت تھی اور وہ بھی محض ضروری کام کے لیے تاہم آج اتوار 26 اپریل سے 14 برس سے کم عمر کے بچوں کو روزانہ ایک گھنٹے کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اب یہ بچے صبح نو بجے سے رات نو بجے کے دوران دن میں صرف ایک بار ایک گھنٹے کے لیے گھر سے باہر جا سکتے ہیں تاہم ان کے گھر سے زیادہ سے زیادہ دوری ایک کلومیٹر سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔
یورپ میں سب سے زیادہ اموات اٹلی میں
کووڈ انیس کے سبب یورپ میں سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ہوئی ہیں جن کی تعداد 26 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ وہاں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ 95 ہزار سے زائد ہے۔
فرانس میں اس مہلک بیماری کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ 62 ہزار کے قریب ہے جبکہ وہاں اس کے سب ہونے والی ہلاکتیں 23 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہیں۔
جرمنی میں کووڈ انیس کے سبب شرح اموات بدستور کافی کم ہے۔ یہاں انفیکشنز کی تعداد ایک لاکھ 57 ہزار کے قریب ہے تاہم یہاں ہونے والی اموات 5,877 ہیں۔
لاک ڈاؤن میں نرمی: جرمنی میں زندگی کی واپسی
جرمنی کورونا وائرس کی وبا سے نمٹتے ہوئے اب دوسرے مرحلے کی طرف رواں ہے۔ کچھ دکانوں، اسکولوں اور اداروں کو کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تاہم ہر ریاست یہ فیصلہ خود کر رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Gebert
جرمن شہری آزادی کی طرف لوٹ رہے ہیں
ایک ماہ مکمل لاک ڈاؤن کے بعد جرمن شہری آزادی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ جرمنی کی زیادہ تر ریاستوں میں بیس اپریل سے آٹھ سو سکوائر فٹ تک کے رقبے والی دکانوں کو کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ لیکن اب بھی برلن جیسی ریاستوں میں دکانوں کو کھولنے کی اجازت دینے میں تاخیر کی جارہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Gebert
ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں دکانیں کھل گئی ہیں
جرمنی کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں دکانیں کھل گئی ہیں۔ بون شہر میں شہری اس پیش رفت سے کافی خوش دکھائی دیے۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
سائیکل اور گاڑیوں کی دکانوں کو گاہکوں کے لیے کھول دیا گیا
جرمنی بھر میں سائیکل اور گاڑیوں کی دکانوں کو گاہکوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ چاہے یہ دکانیں آٹھ سو سکوائر فٹ سے زیادہ رقبے ہی کیوں نہ ہوں۔
تصویر: Getty Images/L. Baron
دکان دار بھی اس لاک ڈاؤن میں نرمی سے کافی خوش
دکان دار بھی اس لاک ڈاؤن میں نرمی سے کافی خوش دکھائی دیے۔ کچھ دکانوں پر سیل لگائی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ گاہکوں کی توجہ حاصل کر سکیں۔ تاہم زیادہ تر اسٹورز پر یہ نوٹس لگائے گئے ہیں کہ ایک یا دو سے زیادہ گاہک ایک وقت میں دکان کے اندر نہ آئیں۔
تصویر: Getty Images/AFPT. Keinzle
اسکول بھی کھول دیے گئے
اکثر اسکول بھی کھول دیے گئے ہیں۔ برلن، برانڈنبرگ اور سیکسنی میں سیکنڈری اسکول کے طلبا کو امتحان کی تیاری کے لیے اسکول آنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اکثر ریاستوں میں چار مئی جبکہ باویریا میں گیارہ مئی سے اسکول کھول دیے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Michael
چڑیا گھروں کو کھولا جا رہا ہے
چڑیا گھروں اور سفاری پارک بھی لاک ڈاؤن کے دوران بند تھے۔ اب کچھ شہروں میں چڑیا گھروں کو کھولا جا رہا ہے۔ عجائب گھروں کو بھی دھیرے دھیرے کھولنے کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Kuegeler
چہرے کا ماسک
کچھ لوگ اپنی مرضی سے چہرے کا ماسک پہن کر باہر نکل رہے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی سرکاری فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ تاہم لوگوں کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ دکانوں کے اندر، بسوں اور ٹرینوں میں سفر کے دوران ماسک پہنیں۔ کچھ ریاستوں میں جرمن شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر اور دکانوں میں خریداری کے دوران ماسک پہنا ہوگا۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
ایک دوسرے سے فاصلہ
اب بھی حکومت ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے پر زور دے رہی ہے۔ جرمن حکام کے مطابق شہری ایک دوسرے سے ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔
تصویر: Getty Images/L. Baron
8 تصاویر1 | 8
برطانیہ ایسا پانچواں ملک بن گیا ہے جہاں کووڈ انیس کے سبب اموات کی تعداد 20 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ آج اتوار 26 اپریل کی صبح یہ تعداد 20,381 ہے جبکہ وہاں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی کُل تعداد ایک لاکھ 50 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔
سعودی عرب بھر میں کرفیو میں نرمی مگر مکہ میں نہیں
سعودی عرب میں آج اتوار کے روز سے کئی مقامات پر لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا گیا ہے، تاہم اس نرمی کا اطلاق مسلمانوں کے لیے مقدس ترین شہر مکہ پر فی الحال نہیں ہو گا۔ سعودی عرب میں کورونا وائرس سے شدید متاثرہ علاقوں میں 24 گھنٹوں کے لیے کرفیو نافذ تھا۔ تاہم اب حکومت نے 13 مئی تک اس میں صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک نرمی کا اعلان کیا ہے۔ اس حکومتی اعلان کے مطابق اس عرصے میں عام اشیائے ضرورت کی دکانیں اور شاپنگ مالز کھلے رہیں گے۔
فلسطینیوں کو اسرائیلی جیلوں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خوف
فلسطینیوں کو خوف ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید افراد میں کورونا وائرس پھیل رہا ہے اور رہائی کے بعد ایسے مریض مزید افراد میں اس وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کے حقوق کےلیے کام کرنے والی ایک تنظیم فلسطینی پرزنرز کلب کے مطابق اسرائیل میں کورونا وائرس پہنچنے کے بعد درجنوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جا چکا ہے، تاہم رہائی پانے والے قیدیوں کی صحت سے متعلق معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ واضح رہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قریب پانچ ہزار فلسطینی قیدی موجود ہیں۔ اسرائیل میں اب تک 15 ہزار افراد جب کہ فلسطینی علاقوں میں 350 افراد میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
وائرس سے بچ جانا اس کے خلاف مدافعت پیدا ہوجانا نہ سمجھا جائے، عالمی ادارہ صحت
عالمی ادارہ صحت نے متنبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس سے بچ جانے والے افراد یہ نہ سمجھیں کہ اب وہ دوبارہ اس وائرس سے متاثر نہیں ہو سکتے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اب تک ایسے شواہد سامنے نہیں آئے، جو ان دعووں کی تصدیق کرتے ہوں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ سمجھ لینا کہ وائرس کے حملے سے بچ جانے کے بعد دوبارہ یہ وائرس ایسے شخص پر حملہ نہیں کر سکتا، ایک قبل از وقت اور خطرناک خیال ہو گا۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے یہ بیان مختلف ممالک میں کورونا وائرس کے انسداد کے لیے جاری لاک ڈاؤن میں نرمی کے اعلانات کے بعد سامنے آیا ہے۔ اب تک واضح نہیں ہے کہ آیا کورونا وائرس سے متاثرہ افراد دوبارہ اس وائرس میں مبتلا ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
انڈونیشیا میں کورونا وائرس کے 275 نئے کیسز
انڈونیشیا میں اتوار کے روز کورونا وائرس کے مزید 275 کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس طرح انڈونیشیا میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد آٹھ ہزار آٹھ سو باسٹھ ہو گئی ہے۔ انڈونیشی وزارت صحت کے مطابق کورونا وائرس سے متاثرہ مزید 23 افراد ہلاک ہو گئے ہیں، جس کے ساتھ اس وبا کے نتیجے میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 743 ہو گئی ہے۔
چمگادڑوں کے بارے میں حیران کن پوشیدہ حقائق
مہلک کورونا وائرس اور بیماریوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے چمگادڑوں کو انتہائی برا تصور کیا جانے لگا ہے۔ لیکن آموں اور کیلوں کی پولی نیشن سے لے کر مچھر کھانے تک، رات کی یہ دلچسپ مخلوق ماحولیاتی نظام کا ایک لازمی حصہ ہے۔
تصویر: picture-lliance/Zuma
صرف غاروں کا مکین نہیں
آسٹریلوی جھاڑیوں سے لے کر میکسیکو کے ساحلوں تک چمگادڑیں درختوں، پہاڑی غاروں میں اور چھتوں سے لٹکی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ زمین پر سب سے زیادہ پھیلا ہوا دودھ پلانے والا جانور ہے اور براعظم انٹارکٹیکا کے علاوہ ہر براعظم پر پایا جاتا ہے۔ یہ واحد دودھ پلانے والا جانور ہے، جو پرواز بھی کرتا ہے۔
تصویر: Imago/Bluegreen Pictures
پتے پر رہائش
ہینڈوراس میں پائی جانے والی سفید چمگادڑیں ہیلیکونیا پودے کے پتے کو ایسے کاٹتی ہیں کہ وہ ٹینٹ کی شکل میں کٹ کر نیچے گرتا ہے۔ چمگادڑوں کی 14 سو اقسام میں سے صرف پانچ کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ چار سے پانچ سینٹی میٹر کی یہ چمگادڑیں صرف انجیر پر گزارہ کرتی ہیں۔
ایک طویل عرصے سے دنیا میں چمگادڑوں کو شیطانی مخلوق قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ان کی صرف تین اقسام خون چوستی ہیں۔ یہ اپنے شکار کے بالوں کو ہٹاتی ہیں اور پھر تیز دانتوں سے خون تک راستہ تلاش کرتی ہیں۔ ان کا شکار عموماﹰ سوتے ہوئے جانور اور گھوڑے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ انسانوں پر حملہ آور ہونے کے لیے بھی مشہور ہیں اور بیماریاں منتقل کر سکتی ہیں۔
چمگادڑوں کی انتہائی چھوٹی آنکھوں اور بڑے کانوں کی بھی اہم وجوہات ہیں۔ زیادہ تر چمگادڑوں کی نگاہ بہت کم ہوتی ہے اور اندھیرے میں کھانا تلاش کرنے کے لیے یہ ریڈار جیسے نظام ’سونار‘ پر انحصار کرتی ہیں۔ ان کے گلے میں ’ہائی پچ‘ آواز پیدا ہوتی ہے، جس سے یہ پیمائش کا کام لیتی ہیں۔ یہ آواز منعکس ہو کر واپس آتی ہے تو یہ انتہائی درست انداز میں اردگرد کی چیزوں تک کا فاصلہ ناپتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Mary Evans Picture Library/J. Daniel
چمگادڑوں کے بغیر ایووکیڈو، آم یا کیلے ناممکن
پولی نیشن کی وجہ سے چمگادڑوں کی ناقابل یقین حد تک ماحولیاتی اہمیت ہے۔ پانچ سو سے زائد پودوں کے پھولوں کی پولی نیشن کا انحصار ان پر ہے۔ ان میں، ایووکیڈو، آم، کیلا اور کيوڑے کے خاندان کے درخت شامل ہیں۔ ایکواڈور اور میکسیکو میں پائی جانے والی لمبی زبان والی چمگادڑیں یہ کام انتہائی مہارت سے سرانجام دیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/All Canada Photos
بیماریوں کا گھر
چمگادڑیں قدرتی طور پر متعدد وائرس کی افزائش کے لیے بہترین ہیں۔ ان میں سارس، میرس، سارس کووِڈ ٹو اور ممکنہ طور پر ایبولا وائرس شامل ہیں۔ سائنسدانوں کے خیال میں ان کا نایاب امیون سسٹم ان وائرس کو دیگر جانوروں تک منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چمگادڑیں زیادہ جسمانی درجہ حرارت اور زیادہ اینٹی وائرل مادے کی وجہ سے ان مختلف اقسام کے وائرس سے محفوظ رہتی ہیں۔
تصویر: picture-lliance/Zuma
چمگادڑوں کی طویل عمریں
چمگادڑیں ایک سال میں ایک ہی بچہ پیدا کرتی ہیں لیکن ان کی عمریں دیگر دودھ پلانے والے جانوروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ کئی قسم کی چمگادڑیں 30 سال تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ ابھی تک معلوم چمگادڑ کی عمر 41 برس ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ بوڑھی بھی نہیں ہوتیں۔ سائنسدانوں کی مطابق ان کی طویل عمر کا راز یہ بھی ہے کہ یہ اپنے بوڑھے ہونے والے سیلز کو خود ہی مرمت کر لیتی ہیں۔