اسپین پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ، جرمنی کو تشویش
5 اگست 2018
ایک اعلی ٰ سطح کے جرمن اہلکار نے انتباہ کیا ہے کہ برلن حکومت فرانس اور سوئٹزرلینڈ سے ملحق سرحدوں پر کنٹرول نافذ کر سکتی ہے۔ اسپین کی جانب مہاجرین کے نئے بہاؤ کے تناظر میں جرمنی سن 2015 کے تجربے کو دہرانا نہیں چاہتا۔
اشتہار
جرمن وفاقی وزارت داخلہ اور مہاجرت کے امور کے ذمہ دار وزیر مملکت ہیلموٹ تائش مَن نے جرمن اخبار ’ویلٹ اَم زونٹاگ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ برلن حکومت سوئس اور فرانسیسی سرحد کے ساتھ زیادہ مضبوط سرحدی کنٹرول قائم کرنے پر غور کر رہی ہے۔
تائش مَن کا کہنا تھا کہ اٹلی کے اپنی بندرگاہوں پر مہاجرین کے جہاز لنگرانداز ہونے پر پابندی کے بعد سے اسپین کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اچانک اضافہ دیکھا گیا ہے اور یہ بات جرمنی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
اس سے قبل سن 2016 میں بلقان روٹ کے بند ہونے کے بعد سے اٹلی مہاجرین کے لیے یورپ میں داخلے کا مرکزی مقام بن گیا تھا۔
تائش مَن نے جرمن اخبار سے بات کرتے ہوئے مزید کہا،’’ ہمیں خدشہ ہے کہ تارکین وطن فرانس اور بینیلکس ممالک یعنی ہالینڈ، بیلجیم اور لکسمبرگ سے جرمنی کی جانب رخ کر سکتے ہیں۔‘‘ تائش مَن کا کہنا تھا کہ جرمن حکام مہاجرین کی نئی لہر سے نمٹنے میں اسپین کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔
عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق رواں برس جنوری اور جولائی کی مدت کے درمیان بحیرہ روم کے راستے اب تک اکیس ہزار مہاجرین اسپین پہنچ چکے ہیں۔ گزشتہ روز ہی اسپین کی کوسٹ گارڈ نے نو کشتیوں پر سوار چار سو ے قریب مہاجرین کو ڈوبنے سے بچایا تھا۔
گزشتہ ہفتے بھی شمالی افریقہ میں موجود ہسپانوی علاقے سبتہ کی سرحدی باڑ پھلانگ کر دوسری جانب اترتے ہوئے سینکڑوں افریقی تارکین وطن اسپین میں داخل ہو گئے تھے۔
رواں برس جون میں وزیر اعظم پیڈرو سانچیز کے وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد سے اسپین میں مہاجرت ایک سنگین سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ سانچیز نے وزیراعظم بننے کے فوراﹰ ہی بعد ایک این جی او کے بحری جہاز پر موجود چھ سو تارکین وطن کو اس وقت اسپین میں داخلے کی اجازت دی تھی جب مالٹا اور اٹلی کی حکومتوں نے ان مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ص ح / ع ت / نیوز ایجنسی
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔