اسپین چوتھا یورپی ملک جہاں قتلِ رحم اب قانوناﹰ جائز ہو گیا
25 جون 2021
اسپین میں قتلِ رحم کا نیا قانون آج جمعہ پچیس جون سے نافذالعمل ہو گیا ہے۔ نیدرلینڈز، بیلجیم اور لکسمبرگ کے بعد اسپین وہ چوتھا یورپی ملک ہے، جہاں اب مریضوں کی خود کشی کرنے میں قانونی طور پر جائز مدد کی جا سکتی ہے۔
اشتہار
ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ سے مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اسپین میں اب مخصوص حالات میں عام لوگوں کی خود کشی کرنے میں مدد کی جا سکتی ہے اور یہ عمل قانونی طور پر قابل سزا نہیں رہا۔ اس نئے ملک گیر قانون پر مکمل عمل درآمد میں ابھی مزید کچھ وقت لگے گا کیونکہ اس کے لیے ہسپانوی حکام کو عملی انتظامات ابھی مکمل کرنا ہیں۔
میڈرڈ کی پارلیمان میں یہ قانونی بل بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم پیدرو سانچیز کی حکومت نے پیش کیا تھا، جسے پارلیمنٹ نے تین ماہ قبل اکثریتی رائے سے منظور کر لیا تھا۔ اس قانونی بل کی قدامت پسندوں کی پیپلز پارٹی، دائیں بازو کی عوامیت پسند ووکس پارٹی اور دو دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کی طرف سے مخالفت کی گئی تھی۔
نئے قانون کے خلاف آئینی اپیل
اسپین میں دائیں بازو کی پاپولسٹ ووکس پارٹی نے تو اس قانون سازی کے خلاف عدالت میں ایک آئینی درخواست بھی دائر کر دی تھی۔ اس وجہ سے تاہم اس بل کو باقاعدہ قانون بننے سے نہ روکا جا سکا اور آج جمعے سے یہ باقاعدہ نافذ بھی ہو گیا۔ اسپین میں کیتھولک چرچ بھی اس نئے قانون کے خلاف ہے۔
اس قانون کے تحت ہسپانوی ڈاکٹروں کو یہ اجازت مل گئی ہے کہ وہ ایسے قریب المرگ مریضوں، شدید نوعیت کی جسمانی معذوری کے شکار افراد اور ناقابل برداشت تکلیف کا سامنا کرنے والے بیمار شہریوں کی خود کشی کرنے میں عملی طبی مدد کر سکتے ہیں۔
ذہنی بیماری قتلِ رحم کی وجہ نہیں ہو گی
اس قانون کے تحت ڈاکٹر یا طبی عملہ کسی ایسے مریض کی خود کشی کرنے یا قتلِ رحم میں عملی مدد نہیں کر سکیں گے، جو ذہنی مریض ہو۔ تاہم ایسے طبی ماہرین euthanasia یا قتلِ رحم کے عمل میں اب مریضوں کی براہ راست اور بالواسطہ دونوں سطحوں پر مدد کر سکتے ہیں۔
یہ عمل کئی مراحل پر مشتمل ہو گا۔ اس میں متعدد ماہر معالجین کی رائے بھی شامل ہوا کرے گی اور وکلاء کے علاوہ چند مخصوص طبی اور انتظامی کمیشنوں کی ماہرانہ رائے لینا بھی لازی ہو گا۔
موت کے لیے گھر کا انتخاب
جاپان میں شدید بیمار افراد کی اکثریت ہسپتال ہی میں مرنا پسند کرتی ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جو ہسپتال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے گھر میں مکمل تنہائی میں ہی موت سے جا ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
کتے کے ساتھ
جب میتسُورو نینُوما کو معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے بس موت کے منہ میں جانے والے ہیں، تو انہوں نے ہسپتال کی بجائے گھر میں مرنا پسند کیا۔ اس طرح انہیں اپنے پوتے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا اور رِن نامی اپنے کتے کے ساتھ بھی۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
اپنے گھر کی چار دیواری
69 سالہ میتسُورو کے سونے کے کمرے کی یہ چار دیواری رنگوں سے روشن ہے، یہ رنگ انہوں نے اپنے پوتے کے ساتھ بکھیرے۔ ایک فزیکل تھراپسٹ ان کے معائنے کو آتا ہے، مساج کرتا اور ان کی ٹانگوں کو جنبش دیتا ہے۔ وہ کئی ماہ سے بسترِ مرگ پر ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتال میں ڈیمینشیا مزید بگڑ گیا
یاسودو تویوکو ٹوکیو میں اپنی بیٹی کے ہاں رہ رہے ہیں۔ اس 95 سالہ مریضہ کو معدے کے سرطان اور ڈیمینشیا کا مرض لاحق ہے۔ ان کی بیٹی ہی ان کا خیال رکھتی ہے۔ یاسوڈو کو ان کی بیٹی ہسپتال سے گھر اس لیے لے آئیں، کیوں کہ انہیں لگا کہ ان کی والدہ ہسپتال میں کم زور ہو گئیں تھیں اور ان کا ڈیمینشیا کا مرض بگڑ گیا تھا۔ جاپان میں مریضوں کی گھر میں دیکھ بھال ایک غیرعمومی بات ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
طویل انتظار
ہر کوئی رضاکارانہ طور پر اپنی زندگی کے آخری چند ہفتے گھر پر رہنا پسند نہیں کرتا۔ کاتسو سایتو کو جب معلوم ہوا کہ انہیں لیکیومیا لاحق ہے، تو انہوں نے قریب المرگ مریضوں کے لیے مخصوص قیام گاہ (ہوسپیس) کا انتخاب کیا، مگر وہاں جگہ ملنے میں انہیں طویل انتظار کرنا پڑا۔ انہیں جب وہاں منتقل کیا گیا، تو وہ فقط دو ہی روز بعد انتقال کر گئے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں میں جگہ کا فقدان
ہسپتالوں اور قریب المرگ مریضوں کی قیام گاہوں (ہوسپیس) میں بستروں کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جاپان میں طویل العمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس وقت جاپان میں ہر چار میں سے ایک شخص 65 برس سے زائد عمر کا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق سن 2030 میں جاپانی ہسپتالوں کو قریب نصف ملین بستروں کی کمی کا سامنا ہو گا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں کے مہنگے کمرے
یاشوہیرو ساتو پیپھڑوں کے سرطان کے باعث انتقال کے قریب ہیں۔ وہ ہسپتال کے ایک انفرادی کمرے میں رہنا چاہتے ہیں مگر چوں کہ ریٹائرڈ افراد کمرے کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ہیلتھ انشورنس انفرادی کمروں کے لیے پیسے نہیں دیتی، وہ ٹوکیو میں ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
چلتے ڈاکٹر
فزیشن یو یاسوئی (دائیں) نے ایک موبائل کلینک قائم کر رکھا ہے، جو قریب المرگ افراد کو ان کے گھروں میں نگہداشت فراہم کرتا ہے۔ 2013ء میں قائم ہونے والا یہ کلینک اب تک پانچ سو افراد کو گھروں میں فوت ہونے والے افراد کی دیکھ بھال کر چکا ہے۔ یو یاسوئی کے مطابق زندگی کے آخری دنوں میں طبی نگہداشت بہت کارگر ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
موت تنہائی میں
یاسوئی کے چند مریض اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے خاندان یا دوست انہیں باقاعدگی سے دیکھنے آتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جنہیں کوئی ڈاکٹر یا نگہداشت کرنے والوں کے علاوہ کوئی دیکھنے نہیں آتا۔ ٹوکیو میں یاسوہیرو کا کوئی نہیں۔ وہ ٹوکیو کے اس فلیٹ میں مکمل طور پر تنہا ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
شاید بعد کی زندگی بہتر ہو
یاسوہیرو کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے کیوں کہ ’انہیں موت کے بعد کی بہتر زندگی درکار ہے‘۔ 13 ستمبر کو یوسوہیرو کی سانس بند ہو گئی تھی اور اس وقت ان کے پاس ان کے فلیٹ میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
مزید یہ کہ کسی بھی انتہائی بیمار یا قریب المرگ مریض کو کم از کم چار مختلف مواقع پر واضح طور پر اپنے اس فیصلے کا اظہار کرنا ہو گا کہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ چاہتا ہے۔
اشتہار
مریض اگر خود فیصلہ نہ کر سکے تو؟
اگر کوئی مریض ذہنی طور پر خود یہ فیصلہ کرنے کے قابل نہ رہے کہ آیا وہ اپنے لیے خود کشی میں طبی معاونت کا خواہش مند ہے، تو اس کی طرف سے تندرستی کے زمانے میں کیا گیا ایسا کوئی تحریری اعلان بھی کافی سمجھا جائے گا۔
ایسی کسی دستاویز میں تاہم متعلقہ فرد کی طرف سے یہ لکھا ہونا چاہیے کہ اگر مستقبل میں وہ انتہائی حد تک بیمار پڑ جائے یا اسے ناقابل برداشت تکلیف کا سامنا کرنا پڑے، تو ڈاکٹروں کو قتلِ رحم کے طور پر اس کی مدد کرنا چاہیے۔
بچوں میں ڈپریشن کی وجوہات
ڈپریشن کی وجہ سے بچوں اور نوعمر افراد میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کو ڈپریشن سے بچانے کے لیے آپ کو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو بچوں میں ڈپریشن کی وجہ بنتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/Nicole Effinger
کارکردگی میں بہتری کے لیے دباؤ
موجودہ طرز زندگی میں اسکولوں، کھیل کود کے میدانوں اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بچوں پر یہ مسلسل دباؤ رہتا ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ گھر واپس آ کر بھی انہیں ڈھیروں ہوم ورک کرنا ہوتا ہے۔ یہ سب چیزیں بچوں پر جسمانی اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel
خاندانی جھگڑے اور انتشار
کسی بھی خاندان میں والدین کے درمیان مسلسل ہونے والے جھگڑوں یا طلاق کا بچوں پر انتہائی بُرا اثر پڑتا ہے۔ ’جرنل آف میرج اینڈ فیملی‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ٹوٹے خاندانوں کے بچوں کو ڈپریشن کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
تصویر: goodluz - Fotolia
ناکافی کھیل کود
بچوں کی جسمانی نشو ونما میں کھیل کود کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ کھیل کود اور جسمانی حرکت سے دماغ چوکنا بھی رہتا ہے اور اس کی افزائش بھی ہوتی ہے۔ اس سے بچوں کو مسائل حل کرنے اور اپنی صلاحیت بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ بچوں میں ذہنی بیماریوں کے ماہر پیٹر گرے کہتے ہیں کہ کم کھیل کود سے بچوں میں مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Schlesinger
انٹرنیٹ اور ویڈیو گیمز
امریکی طبی جریدے ’امیرکن جرنل آف انڈسٹریل میڈیسن‘ کے مطابق وہ بچے جو دن میں پانچ گھنٹے سے زیادہ کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھ کر کھیلتے ہیں یا ٹیبلٹ اور اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں، ان کے ڈپریشن کا شکار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
تصویر: dpa
چینی کا زیادہ استعمال
بچے بازار سے ملنے والی میٹھی چیزوں کے عاشق ہوتے ہیں، مثلاﹰ ٹافیاں، کیک، مٹھائیاں، کوک اور پیپسی جیسے کاربونیٹڈ ڈرنکس وغیرہ۔ ان مٹھائیوں کی وجہ سے ان میں چینی کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ ریسرچرز کے مطابق چینی کی زیادہ مقدار ڈپریشن کا باعث بن سکتی ہے اور یہ دماغ کی نشوونما سے متعلق ہارمونز کو بھی متاثر کرتی ہے۔
تصویر: Colourbox
اینٹی بائیوٹکس کا استعمال
کینیڈا کی میک ماسٹر یونیورسٹی کے محققین نے چوہوں کو اینٹی بائیوٹک ادویات دے کر ان پر ٹیسٹ کیا۔ ان کی تحقیق کے مطابق اس سے چوہے بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں اور دماغ کا وہ حصہ متاثر ہوتا ہے جو جذبات کو کنٹرول کرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
ٹاکسن یا نباتاتی زہر سے بچیں
ہمارا ماحول بری طرح آلودہ ہے۔ مثلاﹰ فصلوں میں استعمال ہونے والی کیمیائی ادویات، صفائی کے لیے استعمال ہونے والا مواد، کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ اور گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں اور آلودگی ہمارے جسم کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہ زہریلے عناصر بچوں میں بھی بے چینی اور ڈپریشن جیسے مسائل بڑھا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb
7 تصاویر1 | 7
طبی عملہ انکار بھی کر سکتا ہے
اسپین میں اس نئے قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے نرسنگ سٹاف کے ارکان کو یہ قانونی حق بھی مل گیا ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی خلش سے بچنے یا مذہبی وجوہات کی بنا پر قتلِ رحم کے کسی بھی عمل میں شرکت سے انکار بھی کرسکتے ہیں۔
اس قانون کے تحت اپنے لیے قتلِ رحم کے طور پر طبی مدد کے خواہش مند افراد کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ اسپین کے شہری یا اس ملک میں قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی ہوں اور انہوں نے پندرہ دن کے وقفے سے اپنے لیے دو مرتبہ تحریری طور پر اس مدد کی درخواست بھی کی ہو۔
م م / ع ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
جرمنی میں موت اور تجہیز وتکفین سے متعلق رویے بدلنے لگے