اسکاٹ لینڈ حیض مصنوعات مفت دینے والا دنیا کا پہلا ملک
25 نومبر 2020
اسکاٹش پارلیمان نے حیض میں استعمال آنے والی تمام اشیاء ملک بھر میں مفت دینے کے ایک بل کو منظور کر لیا ہے۔ خیراتی ادارں نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران ایسی اشیاء خریدنے کو ایک اضافی بوجھ قرار دیا تھا۔
اشتہار
اسکاٹ لینڈ نے منگل 24 نومبر کو حیض میں استعمال آنے والی تمام اشیاء مفت فراہم کرنے کے ایک بل کو منظور کر لیا اور اس طرح ماہواری کی مصنوعات تک رسائی کو قانونی حق دینے والی وہ دنیا کی پہلی ریاست بن گئی ہے۔ 'پیریئڈ پروڈکٹ بل' یعنی حیض سے متعلق مصنوعات کے بل کو پارلیمان میں اتفاق رائے سے منظور کیا گيا۔
اسکاٹ لینڈ کی پارلیمان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، "اس شام کو 'پیریئڈ پروڈکٹ (فری پرویزن) بل' کو اتفاق رائے کے ساتھ منظور کر لیا گيا ہے۔" پارلیمنٹ نے اس برس کے اوائل میں اس کا مسودہٴ قانون منظور کیا تھا۔
اس قانون کے تحت ماہواری کے دوران استعمال ہونے والی تمام اشیاء کمیونٹی سینٹرز، یوتھ کلبس، ٹوائلٹز اور دواخانوں پر بھی رکھی جائیں گی۔ خواتین کے لیے مقررہ مقامات پر ٹیمپُون اور سینیٹری پیڈز یا ٹاول رکھے ہوں گے اور ایام حیض کی حامل خواتین یہ سامان پیسے خرچ کیے بغیر مفت حاصل کر سکیں گی۔ اب اس کی خرید و فروخت کے لیے انہیں دوکان یا مارکیٹ نہیں جانا پڑے گا۔
اس قانون میں اس بات کو یقینی بنانے کی بات کہی گئی کہ ماہواری میں استعمال آنے والی ایسی تمام اشیاء ملک بھر میں ہر اس شخص کو مفت میسر کی جائیں گی جو حیض کے دور سے گزرتا ہو۔ یونیورسٹیوں، کالجز اور اسکولوں کے ٹوائلٹز میں بھی انہیں مفت فراہم کرنے کو کہا گيا ہے تاکہ طلبہ ضرورت کے مطابق ان کا استعمال کر سکیں۔
ایام حیض میں صحت و صفائی کے انتظام کا عالمی دن
04:12
اس مفت اسکیم کو بے جا استعمال یعنی ضرورت سے زیادہ سینٹری پیڈ وغیرہ لینے سے باز رکھنے کے لیے بھی قانون میں بعض خصوصی بھی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
ایک اہم پالیسی
رکن پارلیمان مونیکا لینن جنہوں نے اس کے لیے چار برس مہم چلانے کے بعد یہ بل متعارف کروایا تھا، اس قانون کو دنیا کی قیادت کرنے والا بتایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسکولوں کو بھی حیض کے بارے اس طرح کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ ماہواری سے متعلق بد نما داغ کا خاتمہ ہوسکے۔
اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ وزیر نکولا اسٹریجن نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، "اس اہم قانون سازی کے حق میں ووٹ دینے پر مجھے فخر ہے۔ اسکاٹ لینڈ دنیا کا پہلا ملک بن گيا جو ان تمام افراد کو حیض میں استعمال آنے والی مصنوعات مفت مہیا کریگا جن کو اس کی ضرورت ہو۔"
خیراتی اداروں نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ایام حیض میں ان افراد میں غربت میں اضافہ دیکھا گیا ہے جنہیں ہر ماہ ماہواری کے لیے مصنوعات بازار سے خریدنی پڑتی ہیں۔ ان کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے دوران خاص طور پر ایسی خواتین کے لیے حیض سے متعلق مصنوعات خرید و فروخت بہت مشکل ہوگئی تھی۔
اسکاٹ لینڈ کے خزانے پر ان مصنوعات کی مفت فراہمی کی وجہ سے تقریبا سوا تین کروڑ امریکی ڈالر سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔
ص ز/ ع آ (ٹموتھی جونز)
ماہواری سے جڑی فرسودہ روایات
ایک بھارتی مندر میں تین خواتین کے داخل ہو جانے پر بڑا فساد ہوا۔ ان خواتین نے کئی صدیوں پرانی پابندی جو توڑ دی تھی۔ حیض کی عمر تک پہنچ جانے والی خواتین کو دنیا کے دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
تصویر: Fotolia/Alliance
عبادت نہ کرو
براعظم ایشیا کے کئی حصوں میں دوران حیض خواتین کو عبادت اور دیگر مذہبی رسومات میں شرکت سے استثنا حاصل ہے۔ ہندوستان کے علاوہ چین اور جاپان کی بودھ کمیونٹی کے افراد بھی یہی تصور کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمان خواتین بھی پیریڈز کے دوران نہ تو مسجد جا سکتی ہیں اور نہ ہی دیگر مذہبی سرگرمیاں سر انجام دے سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
کھانا نہیں پکانا
دنیا کے کئی حصوں میں خیال کیا جاتا ہے کہ خاتون کو اس حالت میں کھانا نہیں پکانا چاہیے۔ بھارت کے کئی علاقوں میں یہ تاثر ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض اچار کو چھو لے گی تو وہ خراب ہو جائے گا۔ کچھ معاشروں میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماہواری کے دوران خواتین مکھن، کریم یا مایونیز جما سکتی ہیں۔ کچھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر کسی خاتون نے حالت حیض میں آٹے کو چھو لیا تو وہ ٹھیک طریقے سے پکے کا نہیں۔
تصویر: Reuters
گھر بدر
انڈونیشیا کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ بھارت، نیپال اور نائجیریا کے کچھ قبائل بھی حیض کو ’ناپاک‘ تصور کرتے ہیں۔ یہ خواتین کو ایام مخصوصہ کے دوران گھر سے نکال دیتے ہیں اور عمومی طور پر ان بچیوں اور خواتین کو ماہواری کے دن جانوروں کے لیے بنائی گئی جگہوں پر گزارنا ہوتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں نیپال میں کئی خواتین موسم سرما کے دوران گھر بدر کیے جانے کے باعث ہلاک بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
نہانا نہیں ہے
بھارت سے لے کر اسرائیل اور کئی یورپی اور جنوبی امریکی ممالک میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کو دوران حیض نہانا نہیں چاہیے اور بال بھی نہیں دھونا چاہییں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یوں خواتین بانجھ ہو جائیں گی یا بیمار۔ ان خطوں میں پیریڈز کے دوران خواتین کسی سوئمنگ پول یا ساحل سمندر پر غوطہ بھی نہیں لگا سکتیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/C. Khanna
بنو سنورو مت
’خواتین پیریڈز کے دوران بالوں کو نہ تو کاٹیں اور نہ ہی رنگیں یا سنواریں‘۔ کچھ کا یہ خیال بھی ہے کہ اگر خواتین حالت حیض میں جسم کے بال صاف کریں گی تو وہ دوبارہ زیادہ تیزی سے بڑے ہو جائیں گے۔ کچھ خواتین کو تو ناخن تراشنے یا رنگنے کی بھی ممانعت ہوتی ہے۔ وینزویلا میں مبینہ طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض ’بیکنی لائن‘ سے بالوں کو صاف کریں گی تو ان کی جلد کالی اور خراب ہو جائے گی۔
تصویر: Fotolia/davidevison
پودوں سے دور رہو
کچھ معاشروں میں کہا جاتا ہے کہ دوران حیض خواتین کو پودوں اور پھولوں کے قریب نہیں جانا چاہیے اور کھیتوں سے دور رہنا چاہیے۔ ان فرسودہ روایات کے مطابق اگر یہ خواتین حالت حیض میں نباتات کو چھو لیں گی تو وہ سوکھ یا مر جائیں گی۔ بھارت میں ایسی خواتین کو کہا جاتا ہے کہ وہ مقدس پھولوں کو نہ تو چھوئیں اور ہی پانی دیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مردوں سے دوری
دنیا کے متعدد قدامت پسند خطوں میں پیریڈز کے دوران مردوں کے ساتھ رابطوں کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ آتھوڈکس یہودی مذہب میں خواتین کا حالت حیض میں مردوں سے جنسی رابطہ ممنوع ہے۔ پیریڈز ختم ہونے کے بعد یہ خواتین روایتی طور پر نہاتی ہیں اور اس کے بعد ہی یہ سیکس کر سکتی ہیں۔ پولینڈ اور روانڈا کے کچھ حصوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ دوران حیض کسی خاتون سے جماع مرد کی ہلاکت کا باعث ہو سکتا ہے۔
کچھ فرسودہ عقائد کے مطابق پیریڈز کے دوران ورزش یا کھیل خاتون کے جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں چینی خاتون اسٹار پیراک فو یوناہی نے آشکار کیا تھا کہ انہوں نے حالت حیض میں ریو اولمپک مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ اس بات نے چین میں ایک اہم شجر ممنوعہ توڑ دیا تھا اور یہ پیشرفت ایک نئی بحث کا باعث بن گئی تھی۔
تصویر: Fotolia/Brocreative
ٹیمپون استعمال نہ کرو
دنیا کے قدامت پسند ممالک اور خطوں میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے استعمال کا درست خیال نہیں کیا جاتا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے خاتون کا پردہ بکارت پھٹ سکتا ہے، جو ان ممالک یا خطوں میں انتہائی شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت سمیت کئی قدامت پسند ممالک میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے ساتھ ساتھ سینیٹری پیڈز کا استعمال بھی متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔