1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: خواتین کی جنسی ہراسانی پر نئی بحث

جاوید اختر، نئی دہلی
27 جنوری 2021

ممبئی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ کسی خاتون کے جسم کو کپڑوں کے اوپر سے ہاتھ لگانا جنسی ہراسانی کے زمرے میں شامل نہیں ہوتا۔ لہٰذا ملزم کے خلاف جنسی ہراسانی کا کیس نہیں بنتا۔

Indien Kaschmir Vergewaltigung und Tod einer Achtjährigen
تصویر: Reuters/

بھارتی سپریم کورٹ نے 'اسکن ٹو اسکن کانٹیکٹ‘ جنسی ہراسانی کیس میں ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے پر بدھ ستائیس جنوری کو روک لگاتے ہوئے اس کی پوری تفصیلات طلب کرلی ہے۔

ممبئی ہائی کورٹ نے ایک نابالغ بچی کے ساتھ جنسی ہراسانی کے کیس میں ملزم کو صرف اس بنیاد پر بری کردیا تھا کہ متاثرہ بچی کے ساتھ براہ راست جسمانی رابطہ (Skin to Skin Contact) نہیں ہوا تھا اور ملزم نے بچی کی پستانوں کو براہ راست نہیں چھوا تھا۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر آج  روک لگاتے ہوئے ملزم کو بری کرنے کو بھی روک دیا ہے۔

سپریم کورٹ کی وکیل اور سماجی کارکن ورندا گروور نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ کپڑوں کے اوپر سے کسی خاتون کے جسم کو دبوچنا جنسی زیادتی کا عمل نہیں ہے۔ ورندا گروور کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ 'پوکسو قانون‘  پر نظر ثانی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کیونکہ تین سال جیل کی کم از کم سزا جرم پر قابو پانے میں معاون ہونے کے بجائے اس میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کم ترین سزا کی مدت کم ہو تو ججوں کو اس طرح کے ملزموں کو پوکسو کے تحت قصور وار ٹھہرانے اور سزا سنانے میں جھجھک نہیں ہوگی۔

ورندا گروور مزید کہتی ہیں کہ وہ اس کیس میں جج کے فیصلے سے اس لیے بھی متفق نہیں کیونکہ کسی لڑکی کے جسم کو کپڑوں کے اوپر سے دبوچنے سے جو ذہنی اذیت پہنچے گی اسے نظر انداز کردیا گیا ہے۔

مایوس کن فیصلہ

ممبئی ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ کی خاتون جج جسٹس پشپا گنیڑی والا نے گزشتہ ہفتے 39 سالہ ملزم ستیش بندھورگڑے کو بری کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ استغاثہ نے اس بات کے واضح ثبوت فراہم نہیں کیے کہ آیا ملزم نے بارہ سالہ بچی کے جسم پر سے تمام کپڑے ہٹائے یا نہیں۔ اس بات کے شواہد بھی نہیں ملے کہ ملزم نے براہ راست جسمانی چھیڑ چھاڑ یا پینیٹریشن کی ہو۔ لہٰذا یہ بچوں کو جنسی جرائم سے تحفظ کے قانون (پوکسو) کے تحت نہیں آتا۔ اس لیے یہ جنسی ہراسانی نہیں البتہ یہ کسی خاتون کے وقار کی توہین اور تضحیک کا کیس ہے۔

پوکسو ایکٹ کے تحت مجرم کو تین سے پانچ برس کی سزا ہوسکتی ہے جب کہ خاتون کی تضحیک یا توہین کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک برس سزا ہوتی ہے۔

ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے ایک نئی بحث شرو ع ہوگئی ہے۔ بھارت کے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال سمیت متعدد ماہرین کا کہنا ہے کہ جسٹس گنیڑی والا کا فیصلہ مایوس کن ہے کیونکہ اس سے خواتین اور بالخصوص بچیوں کے خلاف جنسی جرائم میں ملزمان سخت سزاؤں سے بچ جائیں گے۔

معاملہ کیا ہے؟

ملزم کی جانب سے کم عمر بچی کو جنسی ہراساں کیے جانے کا واقعہ 2016 میں پیش آیا تھا اور ماتحت عدالت نے ملزم کو گزشتہ برس فروری میں سزا سنائی تھی۔ بچی نے اپنے بیان حلفی میں بتایا تھا کہ ملزم انہیں کسی بہانے سے اپنے گھر لے گیا، جہاں ملزم نے اس کے پستانوں کو دبانے  کے علاوہ اس کے کپڑے اتارنے کی کوشش کی تھی، جب لڑکی نے شو ر مچایا تو ملزم اسے کمرے میں بند کرکے فرار ہو گیا۔ بچی کی والدہ اسے ڈھونڈتی ہوئی اس تک پہنچیں اور بچی نے والدہ کو پوری کہانی سنائی۔ والدہ نے ملزم پر بچی کو اغوا کرنے اور اس کے ساتھ جنسی ہراسانی کا مقدمہ کردیا تھا۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا تھا، جہاں ناگپور کی عدالت نے ملزم کو 'پوکسو ایکٹ‘  کے تحت سزا سنائی تھی۔

ملزم نے ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو بدل دیا۔

غلط نظیر

بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کو غلط قرار دیا۔ کئی سماجی کارکنوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ کس طرح ایک خاتون جج ایسا فیصلہ دے سکتی ہیں۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے مہاراشٹر حکومت سے کہا ہے کہ وہ ممبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف فوراً اپیل دائر کرے۔

بھارت کے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے اس فیصلے کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ایک غلط نظیر قائم ہوگی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں