ممبئی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ کسی خاتون کے جسم کو کپڑوں کے اوپر سے ہاتھ لگانا جنسی ہراسانی کے زمرے میں شامل نہیں ہوتا۔ لہٰذا ملزم کے خلاف جنسی ہراسانی کا کیس نہیں بنتا۔
اشتہار
بھارتی سپریم کورٹ نے 'اسکن ٹو اسکن کانٹیکٹ‘ جنسی ہراسانی کیس میں ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے پر بدھ ستائیس جنوری کو روک لگاتے ہوئے اس کی پوری تفصیلات طلب کرلی ہے۔
ممبئی ہائی کورٹ نے ایک نابالغ بچی کے ساتھ جنسی ہراسانی کے کیس میں ملزم کو صرف اس بنیاد پر بری کردیا تھا کہ متاثرہ بچی کے ساتھ براہ راست جسمانی رابطہ (Skin to Skin Contact) نہیں ہوا تھا اور ملزم نے بچی کی پستانوں کو براہ راست نہیں چھوا تھا۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر آج روک لگاتے ہوئے ملزم کو بری کرنے کو بھی روک دیا ہے۔
سپریم کورٹ کی وکیل اور سماجی کارکن ورندا گروور نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ کپڑوں کے اوپر سے کسی خاتون کے جسم کو دبوچنا جنسی زیادتی کا عمل نہیں ہے۔ ورندا گروور کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ 'پوکسو قانون‘ پر نظر ثانی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کیونکہ تین سال جیل کی کم از کم سزا جرم پر قابو پانے میں معاون ہونے کے بجائے اس میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کم ترین سزا کی مدت کم ہو تو ججوں کو اس طرح کے ملزموں کو پوکسو کے تحت قصور وار ٹھہرانے اور سزا سنانے میں جھجھک نہیں ہوگی۔
ورندا گروور مزید کہتی ہیں کہ وہ اس کیس میں جج کے فیصلے سے اس لیے بھی متفق نہیں کیونکہ کسی لڑکی کے جسم کو کپڑوں کے اوپر سے دبوچنے سے جو ذہنی اذیت پہنچے گی اسے نظر انداز کردیا گیا ہے۔
بھارت: خواتین کے خلاف جرائم
بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2018 کے مقابلے 2019 میں 7 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اس مدت میں فی ایک لاکھ پر جرائم کی شرح 58.8 فیصد سے بڑھ کر 62.4 فیصد ہوگئی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/S. Pal Chaudhury
روزانہ 88 ریپ
بھارت میں 2019 میں جنسی زیادتی کے 32033 کیسز درج کیے گئے یعنی یومیہ اوسطاً 88 کیسز۔ راجستھان میں سب سے زیادہ 5997 کیسز، اترپردیش میں 3065 اور مدھیا پردیش میں 2485 کیسز درج ہوئے۔ تاہم بیشتر واقعات میں پولیس پر کیس درج نہیں کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
تصویر: imago images/Pacific Press Agency
دلتوں کا اوسط گیارہ فیصد
بھارت کے حکومتی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین میں گیارہ فیصد انتہائی پسماندہ طبقات یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھنے والی تھیں۔
تصویر: Getty Images
اپنے ہی دشمن
خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے 30.9 فیصد معاملات میں ملزم قریبی رشتے دار تھے۔ سماجی بدنامی کے خوف سے ایسے بیشتر واقعات رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/
کینڈل لائٹ مظاہرے
جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ اگر میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس واقعہ اور حکومت کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے ہیں لیکن پھر اگلے واقعہ تک سب کچھ ’شانت‘ ہوجاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Masrat Zahra
نربھیا کیس
دسمبر 2012 کے دہلی اجتماعی جنسی زیادتی کیس کے بعد پورے بھارت میں مظاہرے ہوئے۔ نربھیا کیس کے نام سے مشہور اس واقعہ کے بعد حکومت نے خواتین کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بھی بنائے تاہم مجرموں پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
بیٹی بچاو
وزیر اعظم نریندرمودی نے 2015 ’بیٹی بچاو، بیٹی پڑھاو‘ اسکیم شروع کی جس کا مقصد صنفی تناسب کو بہتر بنانا تھا۔ تاہم جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کے بعد ان کے مخالفین طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ’’مودی جی نے تو پہلے ہی متنبہ کردیا تھا کہ’بیٹی بچاو‘۔ اب یہ ہر والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیٹی کو خود بچائے۔“
تصویر: Reuters/Sivaram V
قانونی جوڑ توڑ
جنسی زیادتی کے ملزمین کو سزائیں دینے کی شرح میں 2007 کے بعد سے زبردست گراوٹ آئی ہے۔ 2006 میں سزاوں کی شرح 27 فیصد تھی لیکن 2016 میں یہ گھٹ کر 18.9 فیصد رہ گئی۔ ملزمین قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔
تصویر: Reuters
30 فیصد ممبران پارلیمان ملزم
جنسی زیادتی کے ملزم سیاسی رہنماوں کو شا ذ ونادر ہی سزائیں مل پاتی ہیں۔ بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں، لوک سبھا کے تقریباً 30 فیصد موجودہ اراکین کے خلاف خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور اغوا جیسے سنگین الزامات ہیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
وحشیانہ جرم
جنسی درندے کسی بھی عمر کی خاتون کو اپنی درندگی کا شکار بنالیتے ہیں۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والوں میں چند ماہ کی بچی سے لے کر 80 برس کی بزرگ خواتین تک شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/F. Khan
ہر سطح پر اصلاح کی ضرورت
ماہرین سماجیات کا کہتے ہیں کہ صرف قانون سازی کے ذریعہ جنسی زیادتی کے جرائم کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے سماجی سطح پر بھی بیداری اور نگرانی کا نظام قائم کرنا ہوگا۔
تحریر: جاوید اختر، نئی دہلی
تصویر: Getty Images/N. Seelam
10 تصاویر1 | 10
مایوس کن فیصلہ
ممبئی ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ کی خاتون جج جسٹس پشپا گنیڑی والا نے گزشتہ ہفتے 39 سالہ ملزم ستیش بندھورگڑے کو بری کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ استغاثہ نے اس بات کے واضح ثبوت فراہم نہیں کیے کہ آیا ملزم نے بارہ سالہ بچی کے جسم پر سے تمام کپڑے ہٹائے یا نہیں۔ اس بات کے شواہد بھی نہیں ملے کہ ملزم نے براہ راست جسمانی چھیڑ چھاڑ یا پینیٹریشن کی ہو۔ لہٰذا یہ بچوں کو جنسی جرائم سے تحفظ کے قانون (پوکسو) کے تحت نہیں آتا۔ اس لیے یہ جنسی ہراسانی نہیں البتہ یہ کسی خاتون کے وقار کی توہین اور تضحیک کا کیس ہے۔
پوکسو ایکٹ کے تحت مجرم کو تین سے پانچ برس کی سزا ہوسکتی ہے جب کہ خاتون کی تضحیک یا توہین کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک برس سزا ہوتی ہے۔
ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے ایک نئی بحث شرو ع ہوگئی ہے۔ بھارت کے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال سمیت متعدد ماہرین کا کہنا ہے کہ جسٹس گنیڑی والا کا فیصلہ مایوس کن ہے کیونکہ اس سے خواتین اور بالخصوص بچیوں کے خلاف جنسی جرائم میں ملزمان سخت سزاؤں سے بچ جائیں گے۔
عورت کس کس روپ ميں استحصال کا شکار
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔
تصویر: dapd
6 تصاویر1 | 6
معاملہ کیا ہے؟
ملزم کی جانب سے کم عمر بچی کو جنسی ہراساں کیے جانے کا واقعہ 2016 میں پیش آیا تھا اور ماتحت عدالت نے ملزم کو گزشتہ برس فروری میں سزا سنائی تھی۔ بچی نے اپنے بیان حلفی میں بتایا تھا کہ ملزم انہیں کسی بہانے سے اپنے گھر لے گیا، جہاں ملزم نے اس کے پستانوں کو دبانے کے علاوہ اس کے کپڑے اتارنے کی کوشش کی تھی، جب لڑکی نے شو ر مچایا تو ملزم اسے کمرے میں بند کرکے فرار ہو گیا۔ بچی کی والدہ اسے ڈھونڈتی ہوئی اس تک پہنچیں اور بچی نے والدہ کو پوری کہانی سنائی۔ والدہ نے ملزم پر بچی کو اغوا کرنے اور اس کے ساتھ جنسی ہراسانی کا مقدمہ کردیا تھا۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا تھا، جہاں ناگپور کی عدالت نے ملزم کو 'پوکسو ایکٹ‘ کے تحت سزا سنائی تھی۔
ملزم نے ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو بدل دیا۔
اشتہار
غلط نظیر
بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کو غلط قرار دیا۔ کئی سماجی کارکنوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ کس طرح ایک خاتون جج ایسا فیصلہ دے سکتی ہیں۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے مہاراشٹر حکومت سے کہا ہے کہ وہ ممبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف فوراً اپیل دائر کرے۔
بھارت کے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے اس فیصلے کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ایک غلط نظیر قائم ہوگی۔
گائے کیوں بن رہی ہیں یہ خواتین؟
بھارتی فوٹوگرافر سجاترو گھوش نے اپنے ایک پراجیکٹ میں ایک سیاسی سوال اٹھایا ہے کہ کیا بھارت میں خواتین کی وقعت گائے سے کم ہے؟ انہوں نے گائے کے نام پر تشدد اور تحفظ خواتین کے مسئلے کو عمدگی سے ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔
تصویر: Handout photo from Sujatro Ghos
کیا گائے کی اہمیت زیادہ ہے؟
تئیس سالہ فوٹوگرافر سجاترو گھوش کہتے ہیں کہ ان کے اس پراجیکٹ کا مقصد خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے مسئلے کو اٹھانا ہے۔ ان کے مطابق، ’’اگر ہم گائے کو بچا سکتے ہیں تو پھر خواتین کو کیوں نہیں۔‘‘
تصویر: Handout photo from Sujatro Ghos
حقوق نسواں کے لیے آواز
گھوش کا کہنا ہے کہ گائے کو بچانے کے نام پر لوگوں کو سر عام قتل کیا جا رہا ہے لیکن خواتین کے تحفظ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق بھارت میں ہر پندرہ منٹ بعد ایک خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Ghosh
گائے کے ماسک
گھوش کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے اپنی دوستوں اور خاندان کی خواتین کو گائے کا ماسک پہنا کر ان کی تصاویر اتاریں۔ لیکن اب بہت سی اور خواتین بھی ان کے پراجیکٹ کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Ghosh
سماجی دشواریاں
بھارت میں جنسی حملوں کے بہت سے کیس تو درج ہی نہیں ہوتے ہیں، کیونکہ کئی بار متاثرہ خاتون کو حملہ آوروں کی جانب سے دوبارہ پریشان کیے جانے کا ڈر رہتا ہے۔ سماجی سطح پر ایسے دقیانوسی نظریات عام ہیں، جن کی وجہ سے متاثرہ خواتین یا ان کے گھر والے خاموش بھی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma
گائے کے نام پر تشدد
حالیہ برسوں کے دوران بھارت میں گائے کے نام پر تشدد کے کئی واقعات رپورٹ کیے جا چکے ہیں۔ کئی واقعات میں تو گائے کا گوشت مبینہ طور پر کھانے پر لوگوں کو قتل بھی کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J.F. Monier
خواتین کے خلاف جرائم
بھارت میں سن 2012 خواتین کی حفاظت کے لیے قوانین سخت کر دیے گئے تھے لیکن اس کے باوجود سن 2015 میں خواتین کے خلاف مختلف قسم کے جرائم کے 327،390 واقعات رپورٹ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گھوش پر تنقید
اس دوران سجاترو گھوش کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ بہت سے لوگ ان پر گائے کی توہین کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
تصویر: AP
بہتری کی امید
گھوش کو امید ہے کہ لوگ ان کے اس پیغام کو درست طریقے سے سمجھیں گے کہ جس طرح گائے کو بچانے کی کوشش ہو رہی ہیں، اسی طرح خواتین کو بھی بچانے کی ضرورت ہے۔