1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

اسکولوں کی بھاری فیسیں، آخر یہ پڑھاتے کیا ہیں؟

8 ستمبر 2022

مجھے کافی عرصہ باقاعدہ یہ تجسس رہا کہ مہنگے اسکول اس قدر بھاری فیسیں لے کر پڑھاتے کیا ہیں؟ یقیناﹰ کچھ خاص پڑھاتے ہوں گے، عام ریاضی تو نہیں پڑھاتے ہوں گے۔ شاید اسکول میں محقیقین مختلف علوم میں نئی دریافتیں کرتے ہوں گے۔

وقار ملکتصویر: privat

 اور پھر ان دریافتوں پر مبنی علوم پڑھاتے ہوں گے۔ کیونکہ اب تک کی معلوم ریاضی و دیگر علوم کے کانسیپٹس کی بات ہے تو وہ تو میں گھر بیٹھے بھی بچوں کو  دے سکتا ہوں کہ ایک واجبی انٹرنیٹ کنکشن کی موجودگی میں دنیا جہان کا علم اور بہترین استاد میری دہلیز پر ہیں۔

 تو اتنی بھاری فیسیں لے کر یقیناﹰ یہ کوئی خاص پڑھاتے ہوں گے لیکن پھر یہ خیال یوں باطل ثابت ہوا کہ ایسے اسکولوں کے پڑھے بچوں میں کچھ بھی غیر معمولی نظر نہ آیا۔

ہاں ایک 'صفت‘، جو نمایاں نظر آئی، وہ حد درجہ خود اعتمادی تھی۔ خبط عظمت کا شکار یہ بچے کسی سے کچھ جاننے کی خواہش نہیں رکھتے تھے نہ ہی ان کے حسین چہروں پر تجسس کی کوئی رمق نظر آئی۔ ہاں وہ صاحب رائے ضرور تھے۔

ہر معاملے پر حتمی رائے رکھتے تھے اور وہ اس 'علم‘ کی روشنی کو ہر سو پھیلانا چاہتے تھے۔ ان کو صرف اچھے سامعین متاثر کرتے تھے۔ یہ حد درجہ خود اعتمادی اس بات کا واضح اعلان تھا کہ ان کے ذہن کے دریچے کچھ مزید سیکھنے کے لیے بند ہو چکے تھے۔ والدین البتہ ان کی بد تمیزی کو چھوتی خود اعتمادی کو دیکھ کر نہال ہو رہے تھے، جو انہوں نے بھاری فیسیں ادا کر کے حاصل کی تھی۔

علوم پیچیدہ نہیں سادہ ہیں۔ اگر میں کوئی نکتہ آپ کو سمجھا نہیں پا رہا تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ نکتہ بہت دقیق ہے بلکہ میرے سمجھانے کا طریقہ کار درست نہیں ہے۔ یہ بات میں انسانی دماغ کی صلاحیتوں اور نصاب کو مد نظر رکھ کر کر رہا ہوں۔

تعلیم دینے کے فرسودہ نمونوں پر نظر ثانی کرنے کا وقت ہے۔ پہلے ہمارے بچے جسمانی سزا اور تشدد سہتے ہوئے نفسیاتی عارضوں کا شکار ہوئے جبکہ اب اس کے ایک اور ردعمل کا شکار بن رہے ہیں۔ یہ ردعمل جسمانی سزا کے تو مخالف ہے، جو کہ اچھی بات ہے لیکن یہ ردعمل نظم و ضبط کو بھی سرے سے اہمیت نہیں دے رہا۔

پاکستان کے نظام تعلیم میں زبان کی افسوس ناک کہانی

 بچوں کے لیے جذبات پر قابو پانے کی تربیت انتہائی اہم ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بچہ کوئی نصابی معاملہ نہیں سمجھ رہا تو اس کی کلی ذمہ داری سکھانے والے پر عائد ہوتی ہے۔ اسی فیصد نمبر لینے والے بچے کو ہم بہت ستائشی نظروں سے دیکھتے ہیں  لیکن دیکھنا ہو گا کہ وہ باقی بیس فیصد کیوں نہیں سمجھ پایا۔

 یہ بیس اور تیس فیصد ڈیٹا میٹرک یا او لیول تک جاتے جاتے کافی زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ ڈیٹا اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ اس کی ناموجودگی میں ہم یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی بچہ آوٹ آف دی باکس سوچتے ہوئے سائنسدان یا کسی اور میدان میں بڑا آدمی بن پائے گا۔ 

آئیے ایک مثال کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ شادی کا کھانا کھلنے کی آواز آ چکی ہے اور تمام لوگ بھاگتے ہوئے کھانے کی میز کی جانب دوڑے ہیں۔ اس دوڑ میں بچے بھی شامل ہیں۔ ایک بچہ لڑتے مرتے ایک پلیٹ کو لبالب بھر لیتا ہے۔ اس کا باپ پہلے ہی یہ کارنامہ سر انجام دے کر ایک کونے میں کھڑا ہے۔

 وہ اپنے بچے کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے کہ یہ زندگی میں مار نہیں کھائے گا۔ دوسری طرف ایک اور بچہ بھیڑ کے کم ہونے کا انتظار کر رہا ہے اور آخر پر اس کو جو ملتا ہے، لے کر آ جاتا ہے۔ اس کا باپ جو کہ ایک روایتی باپ ہے، پریشان ہو جاتا ہے اور اپنی بھری پلیٹ میں سے کھاتے ہوئے مسلسل یہ سوچ رہا ہے کہ 'اس گدھے کی زندگی کیسے گزرے گی؟‘

متذکرہ مثال کو میں نفسیات کے ایک طالب علم کے طور پر دیکھوں تو کافی حد تک یہ ضمانت دے سکتا ہوں کہ وہ بچہ جو دھکم پیل میں سے لڑ جھگڑ کر پلیٹ کو لبا لب بھر کر لے آیا ہے، یہ رویہ آنے والی زندگی میں اس کو ناکام کرنے کے لیے کافی ہے جبکہ وہ بچہ، جس نے تحمل سے بھیڑ چھٹنے کا انتظار کیا ہے، اس کی زندگی میں کامیابی کے واضح امکانات موجود ہیں۔

 اس کی وجہ یہ ہے کہ جذبات کے طوفان اور عقل کو متاثر کرتی طاقتور لہروں پر اس نے ابھی سے قابو پانا سیکھ لیا ہے۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے ہمیں نفسیات کے مختلف تجربات رہنمائی کرتے ہیں۔

ریاضی و دیگر علوم بہت سادہ ہیں۔ جب میں ان کو سادہ کہتا ہوں تو انسانی بچے کی سیکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت سامنے ہوتی ہے۔ اگر پڑھاتے ہوئے بچوں کے عقلی مدارج کو ذہن میں رکھا جائے تو کوئی پیچیدہ سے پیچیدہ خیال ایسا نہیں ہے، جو بچے کو سمجھایا نہ جا سکے۔

 یہاں پر ایک اور دلچسپ حقیقت پڑھتے جائیے۔ خان اکیڈمی دنیا میں تعلیم کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، جس سے دنیا بھر کے ممالک کے بچے بڑے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ خان اکیڈمی کے سیل خان (سلمان خان) کو بہت کمال استاد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

 میرے ذہن میں اکثر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ سیل خان پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو کس قدر آسانی سے سمجھا دیتے ہیں۔ چاہے آپ کا تعلق کسی بھی ملک سے ہے یا آپ کا تعلیمی پس منظر کچھ بھی ہو، اگر آپ واجبی انگریزی زبان جانتے ہیں تو خان اکیڈمی کی ویڈیو دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ خیال سمجھنے میں کس قدر سہل تھا اور آپ کو اپنے سکول کے ایام میں یہ بات کیوں سمجھ نہ آئی؟

میرے ذہن میں سوال پیدا ہوتا تھا کہ آخر سیل خان کے پاس ایسا کون سا جادوئی طریقہ ہے، جو ہر کوئی یوں آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ اس بات کا جواب مجھے اتفاقاﹰ ملا۔ ایم آئی ٹی میں سیل خان خطاب کر رہے تھے اور ان سے ایم آئی ٹی کے ایک طالب علم نے یہ سوال پوچھ لیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ چاہے وہ ریاضی، طبعیات یا کیمیا وغیرہ کے مشکل سے مشکل مسئلے پر بات کر رہے ہوں لیکن وہ یہ بات ذہن میں رکھتے ہیں کہ وہ ایک ایسے بچے سے مخاطب ہیں، جو ساتویں جماعت میں پڑھتا ہے۔

سیل خان کی یہ بات مجھے چونکانے کے لیے کافی تھی۔ ان کی بات سو فیصد درست تھی۔ ساتویں جماعت کا بچہ عموما گیارہ یا بارہ سال کا اور عقلی مدارج میں آخری درجے پر ہوتا ہے۔ یعنی اس عمر میں آپ بچے کو کوئی بھی مجرد خیال سکھا سکتے ہیں۔ کسی طرح کا معروضی یا موضوعی خیال پڑھا سکتے ہیں۔ یعنی سات سال کا بچہ ہر طرح کے خیال کو سمجھ سکتا ہے اگر پڑھانے والا ذہین ہو اور بچے کو درجہ بہ درجہ اس خیال تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اب واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ بچوں میں سیکھنے کی رفتار حیرت انگیز ہوتی ہے۔ تعصب اور خوف اس سیکھنے کی رفتار کو نہ صرف آہستہ کر دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات مکمل راستہ بند کر دیتے ہیں۔ سکول کا پہلا کام بچوں کے نہ صرف ہر سوال کا جواب دینا ہے بلکہ اس کی تجسس کی صلاحیت کو ہوا دینا ہے۔ تجسس آپ کو عجز تو سکھا سکتا ہے لیکن حد درجہ اعتماد نہیں دے سکتا۔ حد درجہ اعتماد ایک احمقانہ روش ہے۔ ہم نے بچوں کو 'کروگر ایفیکٹ‘ سے بچانا ہوتا ہے۔ یعنی جب وہ کسی علم کی کچھ بنیادی معلومات سے واقف ہوتا ہے تو اس میں حیرت انگیز اعتماد در آتا ہے۔

 ایسے میں استاد کا یہ کام ہے کہ اس کو اس علم کی بڑی تصویر کی چند جھلکیاں دکھا دے۔ اس کو کروگر ایفیکٹ کا شکار نہ ہونے دے۔ اس کو بتائے کہ سمندر ابھی آگے ہیں۔ 

بھاری فیسیں دینے کے بعد اگر آپ کے بچے نے جذبات پر قابو پانا نہیں سیکھا، اس کے اندر تجسس کی واضح علامات دکھائی نہیں دے رہیں، وہ گیمز اور دیگر سائنسی ایجادات یعنی گیجیٹس پر بات کرتا رہتا ہے، وہ بہت جلد بوریت کا شکار ہو جاتا ہے، اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے بچے محفوظ نہیں ہیں، اس کے ذہن میں معاشرے کے مسائل سے لے کر علم کائنات تک کے حوالے سے مسلسل سوال پیدا نہیں ہو رہے، وہ اپنے آپ کو کسی بھی حوالے سے برتر سمجھتا ہے تو کہنے دیجیے کہ آپ کی بھاری فیسیں بچے کو احساس کمتری کے شکار اس معاشرے میں شاید کوئی اچھی جاب تو دلوا دے لیکن 'بڑا آدمی‘ نہیں بنوا سکیں گی۔

 گو کہ میرے علم میں نہیں کہ آپ کے ہاں 'بڑے آدمی‘ کا تصور کیا ہے اور آپ اپنے بچے کو ’بڑا آدمی‘ دیکھنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ 

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں