اسکول کا کھانا موت کا پروانہ، 20 بچے ہلاک
17 جولائی 2013’’یہ افسوسناک مگر درست ہے کہ دوپہر کو دیا جانے والا بظاہر زہریلا کھانا کھانے سے 20 بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔‘‘ یہ بات ریاست بِہار کے وزیر تعلیم پی کے شاہی نے خبر رساں ادارے ایف پی کو بتائی۔
منگل کے روز ہونے والے اس واقعے میں ابتدائی طور پر ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد آٹھ بتائی گئی تھی تاہم اب یہ تعداد بڑھ کر 20 ہو چکی ہے۔ وزیر تعلیم کے مطابق 30 کے قریب بچے ابھی بھی پٹنہ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
ریاست بِہار کے ضلع سارن کے ایک گاؤں مسرَخ کے سرکاری اسکول میں منگلکی دوپہر کو پیش آنے والے اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق اسکول میں تیار کیے گئے دال چاول کھانے کے بعد بچے بیمار ہونا شروع ہوئے۔ اس واقعے کے بعد سینکڑوں افراد نے ریاستی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ ضلعی حکومت کے ایک اہلکار ایس کے مال نے اے ایف پی کو بتایا کہ منگل کی شب سے سینکڑوں افراد نے منگل کی شب اس سانحے کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین ذمہ دار افراد کو سخت ترین سزا دیے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ریاست بہار کے ایک سرکاری افسر ابہی جیت سنہا کے بقول اسکول کے باروچی سمیت 27 بچے ہسپتال میں ہیں، جن میں سے 10 کی حالت نازک ہے۔ ذرائع کے بقول بچوں کی عمریں آٹھ اور 11 سال کے درمیان ہیں اور وہ اسکول میں دوپہر کا کھانا کھاتے ہی بیمار پڑ گئے۔ یہ کھانا اسکول کے باورچی خانے میں ہی تیار کیا گیا تھا۔ سرکاری افسر سنہا نے مزید بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں کھانے میں فاسفورس کی نشاندہی ہوئی ہے۔ اسے چاول اور گندم کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ علاقے کے فوڈ انسپکٹر کو معطّل جبکہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے خلاف غفلت برتنے کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔
بھارتی کی کُل 29 میں سے زیادہ تر ریاستوں میں سرکاری اسکولوں میں بچوں کو دوپہر کا کھانا مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ ریاست بِہار بھارت کی غریب ترین ریاست تصور کی جاتی ہے۔ بِہار بھارت کی گنجان آباد ترین ریاست بھی ہے۔