اٹلی میں ایک درسی کتاب میں لفظ ’مہاجر‘ کی وضاحت پر ایک تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔ کئی ناقدین کے مطابق یہ وضاحت نہ صرف امتیازی سوچ کا نتیجہ ہے بلکہ اس میں نسل پرستی کا عنصر بھی شامل ہے۔
اشتہار
اٹلی میں یہ تنازعہ اس وقت پیدا ہوا، جب پرائمری اسکول کی ایک درسی کتاب کے کچھ اقتباسات انٹرنیٹ پر شائع کر دیے گئے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری ہونے والے ان اقتباسات کے ساتھ ہی یہ تبصرے بھی کیے گئے کہ ’مہاجر‘ یا ‘غیر ملکی‘ کی تعریف یا تشریح کرنے کا جو طریقہ استعمال کیا گیا ہے، وہ امتیازی سوچ کا نتیجہ اور نسل پرستانہ ہے۔
پرائمری اسکول کی اس درسی کتاب کے ایک اقتباس کے مطابق ’بالخصوص ایشیا اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں بہت سے افراد کو مہاجر کیمپوں میں رکھا گیا ہے اور یہ افراد غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کا اٹلی میں قیام قانون کے خلاف ہے‘۔
اس کتاب میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’ہمارے شہروں میں زیادہ تر مہاجرین ابتر صورتحال میں پناہ گزیں ہیں، انہیں ملازمتیں تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور معقول رہائشی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔ اس لیے ان کا معاشرتی سطح پر انضمام بھی مشکل ہے۔ مقامی لوگ اقتصادی اور سماجی سطح پر انہیں خطرہ تصور کرتے ہیں اور اسی لیے ان افراد سے متعلق عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں‘۔
ایسے اقتباسات کی وجہ سے شروع ہونے والے تنازعے پر اطالوی وزیر تعلیم نے ملکی اشاعتی ایسوسی ایشن سے ہے کہا کہ وہ اس کتاب پر جامع نظر ثانی کریں۔ اطالوی جزیرے لامپےڈوسا کے سابق میئر Giusi Nicolini نے اس کتاب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’کیا یہ کتاب شہریوں کی قوت برداشت بڑھانے کی غرض سے لکھی گئی ہے؟ اس کتاب کا انتخاب کس نے کیا؟‘‘ سابق میئر نیکولینی کا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے، جہاں گزشتہ برسوں کے دوران مہاجرین کا سیلاب دیکھا گیا تھا۔ وہ لامپےڈوسا کے جزیرے پر مہاجرین کی مدد کے لیے بھی سرگرم ہیں۔
اس درسی کتاب پر کئی دیگر سیاستدانوں نے بھی تنقید کی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے وزیر تعلیم سے باقاعدہ انکوائری کا مطالبہ کیا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ بچوں کی کسی کتاب میں ایسا اشارہ بھی دیا جائے کہ اٹلی میں موجود تقریباﹰ سبھی مہاجرین غیر قانونی ہیں اور ان کا انضمام اطالوی شہریوں کے لیے خطرہ ہے۔
دوسری طرف گرین پارٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس کتاب کو فوری طور پر مارکیٹ سے اٹھا لیا جائے۔ اس کے برعکس ’شمالی لیگ‘ نامی عوامیت پسند جماعت کے رہنما ماتیو سیلوینی نے اس کتاب کے مندرجات کا دفاع کیا ہے۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔