اسلام آباد میں رینجرز کی جانب سے مسلم لیگ نون کے نمائندوں کو احتساب عدالت کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہ دینے کے عمل کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اشتہار
پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف آج مالی بد عنوانی کے کیس میں اسلام آباد میں احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر مسلم لیگ نون کے کارکنان نے بھی عدالت میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن انہیں رینجرز کے اہلکاروں نے اندر نہیں جانے دیا۔ اس پر احتجاج کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ مارشل لاء میں بند کمروں میں عدالتی کیسز چلتے ہیں جمہوریت میں شفاف ٹرائلز ہوتے ہیں اور عوام اور میڈیا کا حق ہے کہ وہ کیس کا مشاہدہ کر سکیں۔‘‘
احسن اقبال نے کہا کہ اسلام آباد کے چیف کمشنر کے ساتھ اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ نواز شریف کو چند ساتھیوں، مخصوص صحافیوں اور وکلاء کے ساتھ عدالت میں جانے کی اجازت دی جائے گی۔ احسن اقبال نے کہا،’’ صبح مجھے چیف کمشنر نے اطلاع دی کہ آج رینجرز اچانک نمودار ہوئے ہیں اورانہوں نے اس جگہ کی سکیورٹی سنبھال لی ہے۔‘‘ احسن اقبال نے کہا کہ رینجرز وزارت داخلہ اور چیف کمشنر کے ماتحت ہوتے ہیں اور اگر انہوں نے چیف کمشنرکی حکم عدولی کی ہے تو اس کی اعلیٰ ترین سطح پر انکوائری ہونی چاہیے۔‘‘
تاہم پاکستانی صحافی حامد میر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ایسا نوٹس شیئر کیا جس میں ایس ایس پی اسلام آباد نے چیف کمشنر اسلام آباد کو خط میں لکھا ہے کہ 2 اکتوبر کو سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر رینجرز پولیس کے ہمراہ کام کرے گی۔‘‘
سوشل میڈیا پر بھی کئی افراد نے اس واقع پر تبصرے کیے۔ ایک صارف محمد انوار الحق نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا،'' ہم دنیا کو کیا بتا رہے ہیں ؟ کیا پاکستان میں صرف نام کی جمہوریت ہے ؟ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی افواج یہ سمجھ لیں کہ ملکوں کے پاس فوج ہوتی ہے ناکہ فوج کے پاس ملک ہوتے ہیں۔‘‘
تجزیہ کار ماریہ سرمد نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’ رینجرز نے آج کیا ثابت کیا ہے یا تو یہ قانون تسلیم نہیں کرتے یا پھر یہ ’چین آف کمانڈ‘ کا احترام نہیں کرتے۔‘‘
صحافی طلعت حسین نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’ عدالت کے جج کا کہنا ہے کہ انہوں نے رینجرز کو نہیں بلایا۔ وزیر داخلہ نے بھی نہیں بلایا۔ اسے کہتے ہیں (مارشل) لاء ۔‘‘
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔