جرمنی میں اس برس کے پہلے پانچ ماہ کے دوران مزید پچانوے ہزار تارکین وطن نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ رواں برس جنوری سے مئی تک مزید کتنے پاکستانی شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں؟ تفصیلات درج ذیل ہیں۔
اشتہار
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے تارکین وطن و مہاجرت (بی اے ایم ایف) نے مہاجرین سے متعلق اس سال کے پہلے پانچ ماہ کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ ان تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جنوری سے مئی کے آخر تک مزید پچانوے ہزار سے زائد تارکین وطن نے پہلی مرتبہ جرمن حکام کو اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔
جرمنی میں نئے آنے والے تارکین وطن میں سے نصف سے زائد کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے۔ ان میں سے پناہ کے متلاشی بیس ہزار افراد کا تعلق شام سے ہے۔ مزید قریب نو ہزار افغان شہری بھی اس عرصے میں جرمنی پہچنے جب کہ عراق کے ساڑھے آٹھ ہزار اور ایران کے سوا چار ہزار شہری بھی پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔
گزشتہ سال کی نسبت رواں برس جرمنی آنے والے پاکستانی تارکین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے، سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران قریب دو ہزار پاکستانی شہریوں نے جرمن حکام کو پہلی مرتبہ اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔
جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کو دیکھا جائے تو چھ سو بھارتی، ڈھائی سو بنگلہ دیشی اور سوا دو سو سری لنکن شہری بھی ان پانچ ماہ کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔
مشرق وسطیٰ میں شام اور عراق کے شہریوں کے مقابلے میں ایک اور جنگ زدہ عرب ملک یمن کے محض 161 شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔
افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے مزید تئیس ہزار تارکین وطن نے بھی اس سال جنوری سے مئی تک جرمنی میں اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ افریقہ سے سب سے زیادہ تارکین وطن اریٹریا سے جرمنی پہنچے، اریٹریا کے قریب ساڑھے پانچ ہزار شہریوں نے اس سال اب تک جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ ان کے بعد زیادہ تر افریقی مہاجرین کا تعلق نائجیریا اور صومالیہ سے تھا۔
ان ممالک کے شہریوں کے علاوہ شمالی افریقہ سے تیونس، الجزائر اور مراکش جیسے مسلم اکثریتی ملکوں کے ہزاروں شہریوں نے بھی اس دوران سیاسی پناہ کے حصول کے لیے جرمنی کا رخ کیا۔
دریں اثناء یورپی ممالک کے ہزارہا شہری بھی ابھی تک پناہ کے حصول کے لیے جرمنی کا رخ کر رہے ہیں۔ بی اے ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر مختلف یورپی ممالک کے سولہ ہزار سات سو شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ ان میں سے ستائیس سو غیر ملکیوں کا تعلق روس سے تھا اور اتنی ہی تعداد میں ترک شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔
روس اور ترکی کے علاوہ سربیا، البانیہ، کوسووو اور مقدونیہ جیسے مشرقی یورپی ممالک میں سے بھی ہر ایک کے دو دو ہزار سے زائد باشندوں نے جنوری سے مئی تک جرمن حکام کو اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔