اس سال اب تک پاکستان، ایران سے سات لاکھ افغان باشندے واپس
14 نومبر 2018
پاکستان اور ایران میں مہاجرین کے طور پر مقیم کئی ملین افغان شہریوں میں سے اس سال کے دوران اب تک سات لاکھ سے زائد افغان واپس اپنے وطن جا چکے ہیں۔ یہ بات بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کی طرف سے بتائی گئی ہے۔
اشتہار
افغان دارالحکومت کابل سے بدھ چودہ نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے بتایا ہے کہ اس سال یکم جنوری سے لے کر اب تک افغانستان کے ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران سے مجموعی طور پر سات لاکھ چھپن افغان شہری واپس اپنے وطن جا چکے ہیں۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
8 تصاویر1 | 8
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (IOM) نے بتایا کہ گزشتہ قریب ساڑھے دس ماہ کے دوران واپس اپنے جنگ زدہ ملک لوٹ جانے والے ان افغان باشندوں میں سے بہت بڑی تعداد ان مہاجرین کی تھی، جو ایران میں مقیم تھے۔ ایران سے وطن لوٹنے والے ان افغانوں کی تعداد چھ لاکھ اکہتر ہزار کے قریب رہی۔
یوں یکم جنوری سے اب تک پاکستان اور ایران سے جتنے بھی افغان مہاجرین واپس اپنے ملک گئے، ان میں سے قریب 96 فیصد نے ایران سے افغانستان کا رخ کیا۔ اس کے برعکس پاکستان سے واپس لوٹنے والے افغانوں کی تعداد صرف قریب 29 ہزار یا مجموعی تعداد کے چار فیصد کے برابر رہی۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق پاکستان کے مقابلے میں ایران سے بہت بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے اپنی وطن واپسی کا جو فیصلہ کیا، اس کی اہم ترین وجہ ایران کے خلاف عائد اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اس ملک میں پائی جانے والی بحرانی صورت حال بنی۔
ایران کی داخلی اقتصادی صورت حال وہاں مقیم افغان مہاجرین پر کس طرح اثر انداز ہو رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ صرف ایک ہفتے کے دوران ایران چھوڑ کر واپس افغانستان لوٹنے والے مہاجرین کی تعداد 12 ہزار سے زائد رہی۔
یوں اوسطاﹰ روزانہ قریب ڈیڑھ دو ہزار افغان مہاجرین اس لیے ایران سے واپس اپنے ملک لوٹ رہے ہیں کہ تہران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے ایٹمی معاہدے سے امریکا کے اخراج کے صدر ٹرمپ کے اس سال گرمیوں میں کیے گئے فیصلے کے بعد وائٹ ہاؤس اب ایران کے خلاف دوبارہ جو سخت پابندیاں بحال کر چکا ہے، وہ ایرانی معیشت اور ملکی مالیاتی نظام دونوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔
اس طرح آئی او ایم کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پاکستان سے واپس اپنے وطن لوٹنے والے غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 380 کے قریب رہی۔
اس عالمی ادارے کے مطابق واپس جانے والے ان افغان باشندوں اور خود ہندو کش کی اس ریاست کا المیہ یہ ہے کہ وہاں داخلی سلامتی کی صورت حال ہنوز بہت خراب ہے، بے روزگاری کی شرح بھی انتہائی اونچی ہے اور معیشت بہت کمزور۔ اس کے علاوہ عشروں سے خانہ جنگی کے شکار افغانستان میں لاکھوں شہری پہلے ہی داخلی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ سلامتی کی صورت حال روز بروز خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔
م م / ع ب / ڈی پی اے
پشاور میں ’کارخانو مارکیٹ‘ کے افغان دکاندار پریشان کیوں؟
پاکستان میں کئی عشروں سے مقیم افغان مہاجرین کی اکثریت خیبر پختون خوا صوبے میں مقیم ہے جو اپنی گزر بسر کے لیے کاروبار بھی کرتے ہیں۔ ان مہاجرین کو خدشہ ہے کہ اگر انہیں وطن واپس بھیجا گیا تو وہاں گزارا کیسے ہو گا۔
تصویر: DW/F. Khan
کاروبار پر پابندی نہیں
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی مشہور مارکیٹ،’کارخانو بازار‘ میں ایک افغان مہاجر کھجور بیچ رہا ہے۔ پاکستان میں ان افغان مہاجرین پر اپنا کاروبار کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
سرمایہ ڈوب جائے گا
پشاور میں رہنے والے افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہاں کاروبار میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اگر انہیں واپس وطن بھیجا جاتا ہے تو ایک تو اُن کا سرمایہ ڈوب جائے گا دوسرے افغانستان میں بزنس کے لیے حالات ساز گار بھی نہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
کپڑوں کا کاروبار
پشاور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں رہائش پذیر زیادہ تر افغان مہاجرین کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
بناؤ سنگھار کی چیزیں
کپڑوں کے بزنس کے علاوہ پشاور کے رہائشی مہاجرین خواتین کے بناؤ سنگھار کی اشیاء بھی بیچتے ہیں۔ اب جبکہ ملکی وفاقی کابینہ کے فیصلے کی رُو سے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن میں دو دن باقی رہ گئے ہیں، یہ مہاجرین مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
فٹ پاتھ پر دوکان
پشاور کے بورڈ بازار اور کارخانو مارکیٹ میں افغان مہاجرین نے نہ صرف بڑی دکانیں ڈال رکھی ہیں بلکہ زیادہ سرمایہ نہ رکھنے والوں نے فٹ پاتھ پر بھی اپنا سامانِ فروخت سجایا ہوا ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
شادی کا سامان
ہت سے افغان باشندے سرحد پار کر کے شادی بیاہ کے کپڑوں اور دیگر سامان کی خریداری کے لیے بھی پشاور کی کارخانو مارکیٹ کا رُخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
پولیس سے نالاں
فٹ پاتھ پر اپنی دکان سجانے والے کئی دکانداروں کو شکایت ہے کہ پولیس انہیں تنگ کرتی ہے۔