1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتافریقہ

اس برس تیونس کے ساحل پر 900 تارکین وطن ڈوب کر ہلاک چکے ہیں

28 جولائی 2023

تیونس کے کوسٹ گارڈز اس برس کے آغاز سے اب تک اپنے ساحل پر ڈوب کر ہلاک ہونے والے تارکین وطن کی 901 لاشیں نکال چکے ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن اور سیاسی پناہ کی تلاش میں یورپ جانے والوں کے لیے یہ ایک بڑا داخلی دروازہ ہے۔

تیونس کے کوسٹ غیر قانونی تارکین وطن کی ایک کشتی کو روکتے ہوئے
اطالوی حکومت کا کہنا کہ اس برس 80,000 سے زیادہ ایسے پناہ کے متلاشی تارکین وطن بحیرہ روم کو عبور کر کے اس کے ساحل پر پہنچے ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق تیونس اور لیبیا سے ہےتصویر: Hasan Mrad/ZUMA/picture alliance

تیونس کے وزیر داخلہ کامل فقی کا کہنا ہے کہ رواں برس اب تک تیونس کے ساحل پر 900 سے زیادہ تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس شمال افریقی ملک کو تارکین وطن کی بڑی تعداد کی آمد کا سامنا رہا ہے، جو غربت سے بچنے کے لیے یہاں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یورپ کی طرف سفر: بحیرہ روم میں درجنوں تارکین وطن بچا لیے گئے

 فقی نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ رواں برس یکم جنوری سے 20 جولائی تک بحیرہ روم میں ہونے والے سمندری واقعات کے حوالے سے اب تک 901 لاشیں برآمد کی جا چکی ہیں۔

یونان کشتی حادثہ، لاشیں واپس لانے میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟

نیشنل گارڈ کے ترجمان حسیم الدین جبالی کا کہنا ہے کہ متعدد کارروائیوں میں 34 ہزار سے زائد افراد کو بچایا بھی گیا ہے۔

تارکین وطن کی ایک اور کشتی ڈوب گئی، تیس سے زائد ہلاکتیں

کہا جاتا ہے کہ تارکین وطن کو لے جانے والی ایسی بیشتر کشتیاں تیونس کے جنوبی شہر اسفیکس سے روانہ ہوتی ہیں اور اس کا مقصد کسی بھی طرح یورپ تک پہنچنا ہوتا ہے۔

یونان میں ڈوبنے والے تارکین وطن کے جہاز میں مبینہ اہم کردار کے الزام میں سات پاکستانی گرفتار

اس سے قبل اطالوی حکومت نے کہا تھا کہ اس برس 80,000 سے زیادہ ایسے پناہ کے متلاشی تارکین وطن بحیرہ روم کو عبور کر کے اس کے ساحل پر پہنچے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق تیونس اور لیبیا سے ہے۔

تارکین وطن کے المیے پر اقوام متحدہ کی تنبیہ

اقوام متحدہ نے ایسے تارکین وطن کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جو ملک کے الگ تھلگ علاقوں میں منتقل ہونے کے بعد سے تیونس میں پھنس گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ حالیہ بدامنی کے بعد بہت سے لوگ اسفیکس سے بے گھر ہو گئے، جبکہ دیگر کو مختلف شہری مراکز سے منتقل کر دیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ نے ایسے تارکین وطن کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جو ملک کے الگ تھلگ علاقوں میں منتقل ہونے کے بعد سے تیونس میں پھنس گئے ہیںتصویر: Fethi Belaid/AFP

اقوام متحدہ کی تنظیم انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) اور پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے ایک مشترکہ بیان میں کہا، ''پھنسے ہوئے لوگوں میں خواتین (بشمول ان کے جو حاملہ ہیں) اور بچے بھی شامل ہیں۔''

بیان میں مزید کہا گیا، ''وہ صحرا میں پھنس کر رہ گئے ہیں، جہاں انہیں شدید گرمی کا سامنا ہے۔ انہیں رہنے کے لیے کوئی شیلٹر اور خوراک یا پانی تک میسر نہیں ہے۔ انہیں جان بچانے والی اہم انسانی امداد فراہم کرنے کی فوری ضرورت ہے اور فوری طور پر اس کا انسانی حل بھی تلاش کیا جانا چاہیے۔''

اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے زور دیا کہ ایسے جو لوگ پھنسے ہوئے ہیں ان کی جان بچانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''آشکار ہونے والے المیے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔''

تیونس میں کیا ہو رہا ہے؟

تقریبا ًسوا کروڑ کی آبادی والے ملک تیونس میں اس کی وجہ سے نسلی کشیدگی اور تشدد بھڑک اٹھا ہے، کیونکہ اب یہ مہاجرین کے راستوں کا ایک اہم مرکز بنتا جا رہا ہے۔

یہ شمال افریقی ملک پہلے سے ہی ایک گہرے معاشی بحران سے نبرد آزما ہے، جہاں مہنگائی اور ریکارڈ بے روزگاری تیونس کے باشندوں کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔

تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی بہتر زندگی کی امید میں بحیرہ روم کے ذریعے اکثر خطرناک کشتیوں میں جان لیوا سمندری سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آئی او ایم کے مطابق تارکین وطن کے لیے وسطی بحیرہ روم دنیا کا سب سے مہلک راستہ بن چکا ہے، جو سن 2014 سے اب تک 20,000 سے بھی زیادہ جانیں لے چکا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں