1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اس طرح تو جانوروں کو بھی نہیں نکالا جاتا، افغان مہاجرین

عبدالستار، اسلام آباد
17 جنوری 2018

پاکستان میں رہنے والے افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع نہ دینے کی خبروں نے پناہ گزینوں میں پریشانی و بے چینی پیدا کر دی ہے۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے ان مہاجرین کے عارضی قیام میں 31 جنوری تک کی توسیع کی گئی تھی۔

Pakistan Peschawar UNHCR Flüchtlingslager Kinder
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sajjad

پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے دعویٰ کیا ہے کہ ان پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ تاہم چیف کمشنر آفس برائے افغان مہاجرین کے دفتر سے جب ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا تو ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ’’ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ جنوری کے شروع میں افغان مہاجرین کے عارضی قیام میں 31 جنوری تک کی توسیع کی گئی تھی۔ وفاقی کابینہ نے وزارتِ سیفران کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ایک جامع منصوبہ تیار کرے اور اسے کابینہ کے سامنے پیش کرے۔ اس حوالے سے مسلسل اجلاس ہو رہے ہیں اورتمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جارہی ہے۔ سفارشات اور تجاویز تیار کی جارہی ہیں اور پھر ایک جامع منصوبہ ان مہاجرین کے لیے بنا کر اس مہینے کے آخر میں کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اب یہ وفاقی کابینہ پر منحصر ہے کہ وہ اس منصوبے کو منظور کر تی ہے یا پھر مسترد۔ ان مہاجرین کو نکالنے کا فیصلہ کرتی ہے یا پھر انہیں مزید مہلت دیتی ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں اس حکومتی عہدیدارنے کہا، ’’اگر حکومت نے فیصلہ کر بھی لیا تو پندرہ لاکھ مہاجرین کو نکالنا آسان نہیں ہوگا۔ دوسرا یہ ہے ہر مرتبہ ہمیں انسانی پہلو بھی پیشِ نظر رکھنا پڑتا ہے۔ تاہم اگر حکومت نے ان کو نکالنے کا فیصلہ کیا تو پھر ان کے پاس واپس جانے کے علاوہ کوئی چارہِ کار نہیں ہوگا۔‘‘
یو این ایچ سی آر نے بھی اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ افغان مہاجرین کو نکالنے کا کوئی حتمی فیصلہ ابھی تک کیا گیا ہے۔ تنظیم کے ترجمان برائے پاکستان قیصر خان آفریدی کے بقول، ’’ہماری تنظیم افغان مہاجرین کی رضاکارانہ، محفوظ اورباعزت واپسی چاہتی ہے۔ اگر ان کو جبری طور پر نکالا گیا تو یہ مہاجرین کے حوالے سے بنائے گئے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔ تاہم ہم حکومت پاکستان کی طرف سے کسی بھی ایسے منصوبے کا خیرمقدم کریں گے جس میں ان مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کی عکاسی ہو۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہو ں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’گزشتہ برس نومبر میں یو این ایچ سی آر، پاکستان اور افغانستان کے نمائندوں کا اجلاس ترکی میں ہوا تھا، جہاں ہم نے یہ تجویز دی تھی کہ افغان مہاجرین کے قیام میں ایک سال کی توسیع ہونی چاہیے لیکن یہ صرف ایک مہینے کے لیئے کی گئی۔‘‘
اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے وزارتِ سیفران کے کئی افسران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن بتایا گیا کہ وہ اجلاسوں میں مصروف ہیں۔
دوسری طرف بلوچستان اور کے پی میں رہنے والے افغان مہاجرین ان میڈیا رپورٹس پر سخت اضطراب کا شکا ر ہیں۔

یو این ایچ سی آر نے بھی اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ افغان مہاجرین کو نکالنے کا کوئی حتمی فیصلہ ابھی تک کیا گیا ہے۔تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed

بلوچستان میں مہاجرین کے رہنما تادین محمد ترکئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس خبر نے تمام افغان مہاجرین کو پریشان کر دیا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت فکر مند ہیں۔ افغانستان میں جنگ ہو رہی ہے۔ ہم وہاں محفوظ نہیں ہیں تو ہم کیسے وہاں جا سکتے ہیں۔ ہم تقریباﹰ تیس افغان قبائلی مشران بائیس یا تئیس جنوری کو اسلام آباد جا رہے ہیں جہاں ہم سینیٹ، وزراتِ داخلہ، وزرات خارجہ اور دوسرے حکومتی اداروں کے لوگوں سے ملیں گے اور انہیں اپنی پریشانیوں سے آگاہ کریں گے۔ اس کے علاوہ ہم اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس بھی کریں گے۔ سیاسی طور پر ہم اے این پی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سے رابطے میں ہیں اور مزید لوگوں سے بھی رابطہ کریں گے۔‘‘
کوئٹہ کے مسلم باغ سے تعلق رکھنے والے افغان مہاجرین کے رہنما ملک نادر نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمیں یہاں چالیس برس سے زیادہ کاعرصہ ہوگیا۔ ہم نہ تو دہشت گردی میں ملوث ہیں اور نہ ہی پاکستان اور افغانستان کی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم محنت کش لوگ ہیں۔ صبح وشام ہم محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ہم پاکستان کے دوست ہیں۔ اس طرح تو جانوروں کو بھی نہیں نکالا جاتا۔ حکومت ہم پر رحم کرے اور ہمارے خلاف ایسے اقدامات نہ کرے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ملک نادر نے کہا، ’’افغان مہاجرین دوہزار چھ سے غیر یقینی صورتِ حال میں رہ رہے ہیں ۔ اُس برس یہ کہا گیا کہ ہمیں دوہزار نو میں نکال دیا جائے گا۔ پھر دوہزار بارہ کا کہا گیا۔ پھر پندرہ اور سترہ کا۔ اس غیر یقینی صورتِ حال کی وجہ سے ہمارا کاروبار اور روزگار برباد ہوگیا۔ اگر ہمیں بھیجا گیا تو ہم اتنی سخت سردی میں وہاں کیسے رہیں گے؟ وہاں ہمیں تحفظ کون فراہم کرے گا؟ یہاں بھی اب پولیس اور ایف سی ہمیں تنگ کرنا شروع کر دے گی۔ پنجاب اور دوسرے علاقوں میں ہمارا داخلہ پہلے ہی بند ہیں۔ ہم پر روزگار کے دروازے بھی بند کر دیےگئے ہیں۔‘‘

پہلی سانس ہی سے مہاجر، پاکستان میں ایک افغان کی کہانی

01:33

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں