کچھ قدامت پسند گروپوں کے ردعمل کے بعد بھارت کے روایتی کپڑوں کے برانڈ فیب انڈیا نے دیوالی سے کچھ ہفتے پہلے جاری کی کیے گئے اپنے ایک اشتہار کو پروموشنل کیپسول میڈیا سے ہٹا دیا۔ کیوں؟ کیونکہ اردو کا استعمال کیا گیا تھا۔
اشتہار
اس اشتہار کو ہتانے کی وجہ؟ ارے بھائی کیونکہ اس اشتہار میں فیب انڈیا نے اردو زبان کے الفاظ ‘جشن رواز' کا استمال کیا تھا۔فیب انڈیا کو سوشل میڈیا پر ٹرول کیا گیا کہ یہ وہ ایک ہندو تہوار میں سیکولر اور مسلم نظریات کو مسلط کر رہا ہے اور اس سے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ٹوئٹر پر اشتہار کی خوب مذمت ہوئی اور کہا گیا کہ فیب انڈیا جیسے برانڈز کو اس طرح کی دانستہ غلطیوں کے لیے اقتصادی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کمپنی کو کہنا پڑا کہ یہ اشتہار دیوالی سے وابستہ نہیں ہے اور جلد ہی اسنے 'جھلمل سی دیوالی' عنوان سے نیا کلیکشن لانچ کیا۔ ہاں، ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹوئٹر پر جشن رواز ہیش ٹگ لگانے کے بعد جب سوشل میڈیا صارفین نے اس برانڈ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تو فیب انڈیا کی یہ پیشکش ٹوئٹر پر سرفہرست ٹرینڈز میں سے ایک بن گئی۔
بہرحال، یہ نہ تو پہلا اور نہ ہی آخری برانڈ ہے جس کو دور حاضر میں ایسے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ دباؤ میں آیا ہے۔
فیب انڈیا کے قصہ کے کچھ ہی دن بعد، ٹاور برانڈ سییٹ کے روڈ سیفٹی کے حوالے سے آگاہی اجاگر کرنے والی ایک اشتہاری مہم میں مشہور اداکار عامر خان نے لوگوں سے دیوالی کے دوران سڑکوں پر پٹاخے نہ چلانے کی اپیل کی۔
جے پور ادبی میلہ
جے پور میں بھارت کا بڑا ادبی میلہ جاری ہے۔ اس میں ہندی، اردو اور انگریزی سمیت مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے مصنفین، ادیب اور سماجی شخصیات شریک ہیں۔ یہ میلہ تیئس جنوری سے شروع ہو کر ستائیس جنوری کو ختم ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/J. Sehgal
دنیا بھر کا ادب ایک جگہ
اس میلے میں دنیا کے بیس ممالک سے تعلق رکھنے والے تین سو سے زائد ادیب شریک ہیں، جو پینتیس مختلف زبانوں میں ادب تخلیق کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/J. Sehgal
ششی تھرور
ادب کسی بھی معاشرے میں سماج اور سیاست سمیت انسان کی زندگی کے تمام تر پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ جے پور لٹریچر فیسٹیول میں بھی مختلف سماجی شخصیات نے بھارتی معاشرے میں ہوتی تبدیلیوں اور ان کے ممکنہ تدارک کے لیے نئے راستوں کی ضرورت پر زور دیا۔ اس میلے میں معروف سیاسی شخصیت اور لکھاری ششی تھرور مرکز نگاہ رہے۔
تصویر: DW/J. Sehgal
میلے پر بھارت میں شہریت کے نئے قانون کے سائے
بھارت میں حال ہی میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے منظور کروائے گئے شہریت ترمیمی قانون کے سائے بھی اس میلے پر واضح نظر آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف محفلوں میں بھارت میں نچلی ذات کے افراد کے مسائل پر بھی گفت گو ہوئی۔
تصویر: DW/J. Sehgal
کشمیر کا موضوع بھی زیر بحث
ودھو ونود چوپڑا کی تازہ فلم شکارہ میں کشمیری پنڈتوں کے موضوع کو فلمایا گیا ہے۔ اس میلے میں انہوں نے بھارتی کشمیر کے معاملے پر حاضرین کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی آواز لوگوں تک پہنچانا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔
تصویر: DW/J. Sehgal
کشمیر کی ایک طاقت ور آواز
آبھا ہنجورہ کا تعلق بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہے۔ یہ لڑکی یوٹیوب پر ان دنوں کشمیری لوک موسیقی کی وجہ سے شہرت پا رہی ہے۔ اس نے اس لوک موسیقی میں پاپ میوزک کو بھی شامل کیا ہے۔ یہ گلوکارہ اپنے گیتوں میں کشمیری شہریوں کی کہانیوں کو لوگوں کے سامنے لاتی ہے۔
تصویر: DW/J. Sehgal
انگریزی مصنف لیم سیسے کی پرفارمنس
برطانوی لکھاری لیم سیسے نے جے پور لٹریچر فیسٹیول میں اپنی کتاب’’مائی نیم از وائے‘‘ کے مختلف چیپٹرز اپنے مخصوص انداز سے پڑھ کر سنائے۔ اس میلے میں بین الاقوامی ادیبوں نے اپنے اپنے معاشروں میں انسانوں کو لاحق بنیادی مسائل کو اپنی گفت گو کا موضوع بنایا۔
تصویر: DW/J. Sehgal
خواتین اور معاشرہ
حالیہ کچھ عرصے میں دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے آوازوں میں تیزی آئی ہے اور خصوصاً سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے خواتین کے حقوق سے متعلق آگہی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اسی موضوع پر جے پور ادبی میلے میں ایک سیشن مخصوص کیا گیا تھا، جس میں خواتین نے مسائل اور مستقبل پر تفصیلی بات کی۔
تصویر: DW/J. Sehgal
ملالہ کی کتاب توجہ کا مرکز
اس ادبی میلے میں پاکستان سے تعلق رکھنا والی دنیا کی کم عمر ترین نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی آپ بیتی “آئی ایم ملالہ” بھی توجہ کا مرکز رہی۔ ادبی میلے میں نوجوانوں نے یہ کتاب خریدنے میں خصوصی دلچسپی دکھائی۔
تصویر: DW/J. Sehgal
کتابیں پڑھیے
اس میلے میں ایک بورڈ ہر جانب دکھائی دیتا ہے۔ “کتاب میری سب سے اچھی دوست ہے”، یہاں آنے والے افراد آتے خالی ہاتھ ہیں، مگر جاتے ہوئے ان کے ساتھ ایک بہترین دوست ضرورت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/J. Sehgal
ماڈل، ایکٹر اور مصنف لیزا رانی رے بھی میلے میں
بھارتی نژاد کینیڈین ماڈل اور اداکارہ لیزا رانی رے ایک طویل عرصے عوامی منظر نامے سے غائب رہیں، مگر اب وہ ایک مرتبہ عوامی سطح پر موجود ہیں۔ انہوں نے میمنزم یعنی زر پرستی یا سرمائے کی بے تحاشا حرص کے موضوع پر گفت گو کی۔
تصویر: DW/J. Sehgal
راجستھانی ذائقے بھی
معاشرے کی پہچان اگر ادب ہے تو اس کی شناخت اس خطے کے کھانے بھی ہوتے ہیں۔ اس میلے میں راجستھانی کھانے بھی رکھے گئے ہیں، جو مخصوص انداز سے پیش اور نوش کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Sehgal
11 تصاویر1 | 11
بس پھر کیا تھا، اعتراض ظاہر کیا جانے لگا کہ اس اشتہار سے بھی 'ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے'۔ کہا گیا کے آخر عامر خان دیوالی کے پٹاخوں، جن پر سپریم کورٹ نے دلی کے علاقے میں پابندی بھی لگائی تھی، ان کے بارے میں کیسے بول سکتے ہیں۔ وہ سڑک پر ادا ہونے والی نماز کے بارے تو نہیں بولتے۔ یوں ٹوئٹر پر اس معاملے پر بھی گھمسان کی بحث چھڑ گئی۔
اس سے قبل، شادی کے لباس کے برانڈ مانیور کا بالی وڈ کی اداکارہ عالیہ بھٹ کو شادی کے لباس میں دکھانے والا ایک اشتہار بھی ایک تنازعہ کھڑا کرنے کا باعث بن چکا ہے۔ اس اشتہار میں 'کنیا دان کی ایک پرانی ہندو روایت پر سوال اٹھایا گیا تھا اور خواتین کے حق میں بات کرتے ہوئے ان کی پسند کی شادی پر زور دیتے ہوئے 'کنیا مان کا جدید تصور متعارف کرانے کی کوشش کی گئی۔
کچھ عرصہ پہلے، ٹاٹا گروپ کے زیورات برانڈ تنشق کو ایک اشتہار ہٹانے پر مجبور کیا گیا تھا جس میں ایک بین المذاہب جوڑے کو دکھایا گیا تھا۔ اس اشتہار میں مسلمان سسرالیوں کی طرف سے ہندو دلہن کے لیے منعقدہ ‘ ایک رسم چل رہی تھی۔ خوب ٹرولنگ ہوئی، دھمکیاں ملیں۔ جلد ہی تنشق نے اپنے سٹورز اور ملازمین کو پیش خطرات کے پیش نظر اشتہار بند کر دیا۔
2019 میں صرف ایکسل کے ہولی پر نشر کیے گئے ایک خوبصورت اور دل چھو لینے والے اشتہار کو بعض گروپوں کی جانب سے اسی طرح کی تنقید کا نشانا بنایا گیا تھا کیونکہ اس میں دو مختلف مذاہب کے بچوں کو رنگوں کا تہوار مناتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر طنز نگاروں نے ان ٹرینڈز کو جشن بائیکاٹ کہا تو کسی نے اقتصادی دہشت گردی۔ حساسیت اور تخلیقی اظہار کی آزادی کی باتیں بھی ہوئیں۔ لیکن عدم برداشت سب مثبت باتوں پر ہاوی ہی نظر آئی۔
اشتہارات آن لائن یا آف لائن ہوں، دونوں طرح سے یہ کسی بھی برانڈ کی تشہیر کے اہم آلات ہوتے ہیں۔ پر یہ اشتہارات دراصل کس چیز پر مبنی ہوتے ہیں؟ وہ روزمرہ کے حالات اور منظر ناموں کی عکاسی کرتے ہوئے لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ ایک خاص برانڈ ان کی روزمرہ زندگی کے ساتھ کس طرح فٹ بیٹھتا ہے۔
یعنی اشتہارات معاشرے کی نبض کو سمجھتے ہیں۔ پر کیا واقعی؟ خاص طور پر آج کل جب ہمارے سیکولر ملک میں آبادی کی ایک بڑی تعداد کو مختلف نسلی یا مذہبی برادریوں کے افراد کے ساتھ پرامن آپسی رواداری کے خیال سے بھی اپنے وجود کے لیے خطرا لگنے لگتا ہے۔
نتیجۃً ہم آہنگی کی قدیم وراثت پر مبنی ایسی اشتہاری فلموں کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے اور ٹوئٹر اور سماجی رابطوں کی سیب سائٹس رائے کے تصادم کا میدان جنگ بن جاتے ہیں۔
کراچی میں چھٹی عالمی اردو کانفرنس
کراچی نے لگاتار چھٹے سال عالمی اردو کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ آئے دن کی بد امنی اور دہشت گردی سے متاثرہ اِس شہر کے باسی تمام تر تشدد کے باوجود اردو زبان سے گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام اٹھائیس نومبر سے لے کر یکم دسمبر تک منعقد ہونے والی اس چار روزہ کانفرنس میں پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین شریک ہوئے، جن کا کہنا تھا کہ ایسے نامساعد حالات میں اتنی شاندار کانفرنس کا انعقاد کراچی کے شہریوں کے بلند حوصلے کی غمازی کرتا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
کراچی نے لگاتار چھٹے سال عالمی اردو کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے ایک دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ آئے دن کی بد امنی اور دہشت گردی سے متاثرہ اِس شہر کے باسی تمام تر تشدد کے باوجود اردو زبان سے گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ معروف شاعر امجد اسلام امجد کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔
تصویر: DW/R. Saeed
کانفرنس کے پہلے دن جمعرات 28 نومبر کو افتتاحی اجلاس میں سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید قائم علی شاہ مہمان خصوصی تھے جبکہ مجلسِ صدارت اردو ادب کی ان شخصیات سے مزین تھی، جن کی جگمگاہٹ چاروں دن اس کانفرنس کی تقریبات کو روشن کرتی رہی۔
تصویر: DW/R. Saeed
چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں شریک رضا علی عابدی (دائیں) اور شمیم حنفی۔ بھارت سے آئے ہوئے نقاد اور ادیب شمیم حنفی کے بقول اردو زبان جن اقدار کی نشاندہی کرتی ہے، وہ تہذیب اور شعور سے وابستہ ہیں اور گو کہ چار دنوں میں زبان سے وابستہ چیزوں کا احاطہ مشکل تھا مگر اردو زبان سے محبت کرنے والوں کا اجتماع دیکھ کر خوشی ہوئی۔
تصویر: DW/R. Saeed
پاکستان کی معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے۔ اردو کانفرنس کی چہل پہل دیکھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا تھا کہ اردو کے دلدادہ عہد حاضر میں بھی اس زبان کو ہمعصر رکھنے پر گامزن ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
اس کانفرنس کے مختلف اجلاسوں میں کئی نامور ہستیوں کو سپاس پیش کیا گیا، جن میں فرمان فتحپوری، محمد علی صدیقی، محمود واجد، سراج الحق میمن اور داود رہبر بھی شامل تھے لیکن پروگرام کا جو حصہ سب پر بازی لے گیا، وہ تھا معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ بتائی گئی ایک شام۔
تصویر: DW/R. Saeed
اس کانفرنس کے دوسرے دن کا آغاز معاصر شعری رجحانات پر ہونے والے اجلاس سے ہوا، جس کی صدارت ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے کی۔ اپنے خطاب میں امریکا سے آئے ہوئے اس شاعر اور دانشور نے کہا کہ عہد ساز شاعری عصری رجحانات سے ہی جنم لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسائی شاعری کراچی شہر کی پیداوار ہے اور اب بھارتی شاعری میں بھی اس کے اثرات پائے جانے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
اس کانفرنس کے دوران ناول نگار عبداللہ حسین کے ساتھ منائی جانے والی ایک شام میں ناول نگار محمد حنیف نے بھی شرکت کی اور پاکستان کے اس عہد ساز ناول نگار کے فن پر گفتگو کی۔
تصویر: DW/R. Saeed
کانفرنس کے آخری دن اردو افسانے کی صدی پر ایک تفصیلی اجلاس ہوا، جس کی صدارت ناول نگار انتظار حسین، اسد محمد خان، حسن منظر اور مسعود اشعر نے کی۔ مقررین میں اطہر فاروقی، زاہدہ حنا، ڈاکٹر آصف فرخی اور اخلاق احمد بھی شامل تھے۔ انتظار حسین خطاب کرتے ہوئے۔
تصویر: DW/R. Saeed
9 تصاویر1 | 9
سند رہے کے سوشل میڈیا کے اس دور میں ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ ایک ہتھیار ہے جس کے سامنے بڑے بڑے بھی گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔ ٹرولنگ سب سے تیز رفتار ٹرینڈ اور سب سے کارگر طریقہ ہے سیاسی فائدوں کے لیے رائے عامہ پر اثر اندوز ہونے کا، جذبات کو بھڑ کانے کا اور تنازعات پیدا کرنے کا۔
یاد یہ بھی رہے کے ایک طویل عرصے سے لوگ دیوالی کو جشن چراغاں بھی کہتے آئے ہیں، مل جل کر مناتے آئے ہیں۔ ہمارے محلے میں آج بھی کئی مسلمان کمہار دوالی کے دئیے اور مٹی سے بنے گنیش لکشمی کے خوبصورت بت بناتے ہیں اور بیچتے ہیں۔
علاوہ اس کے، جس انگریزی زبان میں یہ ٹوئٹ کیے گئے اس کے برعکس اردو بھارت کی سرکاری طور پر تسلیم شدہ زبانوں میں سے ایک ہے۔ یوں کہیے کے اردو اور ہندی دو جڑواں بہنوں کی طرح ہیں۔ ایک ہی گھر میں پیدا ہوئیں، ایک ہی آنگن میں پروان چڑھیں۔ الفاظ آپس میں ایسے جڑے ہوئے ہیں کے الگ کیے ہی نہیں جا سکتے
وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 22 اکتوبر کو قوم سے خطاب کیا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ دیکھا جائے کے تقریر میں کوئی اردو لفظ تو نہیں ہے۔ میں آسانی سے کم از کم 50 الفاظ تو گن ہی پائی۔
اظہار راے کی آزادی، زبانوں کے، الفاظ کے استعمال کی آزادی زندہ باد۔