1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اشیاء کی قلت: کیا نئے سال میں مثبت تبدیلی کا امکان ہے؟

26 دسمبر 2021

سن 2021 میں اشیاء کے ذخیرے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اندازوں کے مطابق اگلے برس میں امکانات بہتر دکھائی نہیں دے رہے۔ اب یہی ہے کہ آرام سے بیٹھیں اور اچھے وقت کا انتظار کیا جائے۔

Weltspiegel 06.07.2021
تصویر: WILLY KURNIAWAN/REUTERS

رواں برس کے شروع ہونے پر توقع تھی کہ یہ سال بہتر ہو گا لیکن کووڈ انیس کی وبا نے سب کچھ تاراج کر دیا۔ سن 2020 میں لاک ڈاؤن کا تسلسل ختم ہونے کے بجائے رواں برس میں بھی جاری رہا۔ توقع تھی کہ مدافعتی ویکسین کی آمد سے عالمی اقتصاد میں روز افزوں ترقی پیدا ہو گی اور کورونا پابندیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن یہ ایک خواب تھا اور پورا نہ ہو سکا۔

مسلمان تاجروں کی ہجرت سے وسطی افریقی جمہوریہ میں خوراک کی قلت

یہ درست ہے کے عالمی پیدواری عمل میں تیزی پیدا ہوئی لیکن پھر یہ رفتار جلد ہی ٹوٹ گئی۔ اشیاء کی طلب بڑھی تو مال برادر بحری جہازوں کی صنعت میں افراتفری پیدا ہو گئی اور رسد کا سلسلہ منقطع ہونے کے قریب پہنچ کر رہ گیا۔ اب کسی حد تک سست انداز میں ریکوری کا عمل شروع ہے۔

دنیا بھر میں فیول کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان جاری ہے اور کئی ملکوں میں پٹرول کی قلت پیدا ہےتصویر: Chris J Ratcliffe/Getty Images

مشکلات کا پیچیدہ سلسلہ

وبا کے دوران بچت کے ڈھیروں پر بیٹھے افراد واپس اپنے گھروں کو جانے کی خواہش کے ساتھ سفر کرنے سے قاصر رہے۔ وہ باہر جانے یا فلم دیکھنے سے بھی محروم رہے۔ دوسری جانب اشیاء کی طلب میں اضافہ ہوتا گیا۔

چین سمت جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی بندرگاہوں پر وبا کے حفاظتی اقدامات نے کاروباری و مزدوری کی سرگرمیوں کو متاثر کر دیا اور اس باعث دنیا میں طلب یا ڈیمانڈ بڑھتی گئی اور رسد یا سپلائی میں کمی آتی گئی۔

اس صورت حال نے اقوام عالم کو پہلے سے موجود اشیاء پر گزربسر پر مجبور کر دیا اور کاروبار آہستہ آہستہ ٹھپ ہونے لگے۔ ہر چیز کی قلت پیدا ہونے لگی۔ سائیکلیں، کھلونے، سمارٹ فونز اور حتیٰ کہ کمپیوٹر کی چپس بھی کمیاب ہونے لگیں۔

ماحولیاتی تبدیلیاں قدرتی وسائل کے حصول کے لیے بھی خطرہ

اب صورت حال یہ ہے کہ طلب بڑھ چکی ہے اور سپلائی یا رسد کا سلسلہ رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ماہر اقتصادیات کولمین نی کا کہنا ہے کہ سپلائی میں کمی کی ایک وجہ سفری پابندیاں ہیں کیونکہ ایئر ٹریفک کم ہو کر رہ گئی ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک میں اشیائے خورو نوش مہنگی ہو چکی ہیںتصویر: Mahmoud Zayyat/AFP/Getty Images

کنٹینرز کی قلت

طلب کے بڑھنے سے گوداموں میں ذخیرہ کیا گیا سامان بازاروں میں لایا گیا لیکن طلب کے مقابلے میں رسد نہ ہونے کے برابر تھی اور گودام خالی ہوتے گئے۔ امریکا اور یورپی بندرگاہوں پر بحری جہازوں کو کنٹینروں کی کمی سامنا کرنا پڑ گیا اور سامان کی ترسیل و تقسیم میں ناہمواری پیدا ہو گئی۔

خالی کنٹینرز کا دستیاب ہونا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ بھرے ہوے کنٹینروں میں سے سامان نکالنے کا عمل سُست ہو کر رہ گیا ہے۔ خالی کنٹینروں کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہیں۔ بحری جہاز سے سامان کی ترسیل کی قیمت میں گزشتہ برس کے مقابلے میں ایک سو ستر فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ سمندر کے ذریعے مال بھیجنے کے کرائے اور کنٹینرز کی قیمت میں اضافے سے عام ضروریات کی اشیا میں معمول سے ڈیڑھ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

جرمنی میں اگلے سال کے شروع میں کورونا ویکسین کی قلت کا امکان

سپلائی کے ایک ماہر جان ہوفمین کا کہنا ہے کہ سمندری مال برداری کی صورت میں افراتفری ایسی ہو گئی ہے جیسا کہ ایک موٹر وے کو تین لین کے بجائے دو رویہ کر دیا جائے۔ ہوفمین کے مطابق سامان کی ترسیل سست رو ہو چکی ہے اور اس کو نارمل ہونے میں وقت درکار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ خاندان اور کمیونٹیز، جن کی آمدن میں وبا کی وجہ سے کمی ہو گئی ہے، وہ شدید آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں۔

خالی کنٹینرز کا دستیاب ہونا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ بھرے ہوے کنٹینروں میں سے سامان نکالنے کا عمل سُست ہےتصویر: VCG/imago images

کمپیوٹر چِپس کی قلت

موجودہ بحرانی دور میں کار سازی کی صنعت کو شدید مسائل کا سامنا ہے اور سب سے زیادہ متاثر قرار دیا جا سکتا ہے۔ کار سازی میں استعمال ہونے والی  کمپیوٹر چِپس کی قلت سے یہ انڈسٹری شدید بحران سے گزر رہی ہے۔ کئی کار ساز اداروں نے پرڈکشن پر عارضی بندش لگا دی ہے کیونکہ کاروں میں ٹچ اسکرین سسٹم، نیوی گیشن کا نظام اور کئی خودکار آلات کی تنصیب مشکل ہو کر رہ گئی ہے۔

اسی طرح الیکٹرانک مصنوعات بھی بتدریج مہنگی ہو رہی ہیں۔ لیپ ٹاپس، اسمارٹ فونز اور گیمنگ کنسولز میں نصب ہونے والے سیمی کنڈکٹرز کی دستیابی مشکل ہو چکی ہے۔ بوش اور کونٹینینٹل جیسی بڑی کمپنیوں کو کمپیوٹر چِپ اور سیمی کنڈکٹرز کی بین الاقوامی طلب کے مطابق سپلائی کی فراہمی شدید مشکل ہو کر رہ گئی ہے۔

کار سازی میں استعمال ہونے والی  کمپیوٹر چِپس کی قلت سے یہ انڈسٹری شدید بحران سے گزر رہی ہےتصویر: Klaus Ohlenschläger/picture alliance

اس باعث جرمنی میں کار سازی میں تیس فیصد کی گراوٹ پیدا ہو چکی ہے۔ ایسی صورت حال یورو زون کی بھی ہے۔ کاروں کی ترسیل میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ عالمی سطح پر کاروں کی فروخت میں بیس فیصد کی کمی ہو چکی ہے۔

افغانستان میں خوراک کا بحران سابقہ حکومت کی 'میراث' ہے، طالبان

ایسا امکان ہے کہ کار اندسٹری کی مشکلات اگلے برس کم ہو جائیں کیونکہ کمپیوٹر چِپ بنانے والے ایشیائی ممالک کی جانب سے سپلائی بہتر ہونے کا امکان ہے۔ لیکن عام انسانوں کا کیا ہو گا اور کیا ان پرمہنگائی کا بوجھ مسلسل بڑھتا رہے گا؟

آشوتوش پانڈے (ع ح/ ع ب)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں