اشیائے خوراک میں شکر اور نمک کم، جرمن فوڈ انڈسٹری کا فیصلہ
19 دسمبر 2018
جرمن فوڈ انڈسٹری نے رضاکارانہ طور پر اشیائے خوراک میں شکر اور نمک کی مقدار کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عالمی سطح پر اشیائے خوراک میں شکر اور نمک کے استعمال کو کم کرنے کا جرمن فوڈ انڈسٹری کا فیصلہ لائق تحسین قرار دیا گیا ہے۔
اشتہار
جرمنی کی وزیر خوراک و زراعت جولیا کلوئکنر نے تصدیق کی ہے کہ ملکی فوڈ انڈسٹری اس پر رضامند ہو گئی ہے کہ جدید پلانٹ پر تیار کی جانے والے اشیائے خور و نوش میں چینی، نمک اور چربی کی مقدار کو کم کر دیا جائے گا۔ مکمل کمی کے فیصلے کا اطلاق سن 2025 تک ہو سکے گا۔
جولیا کلوئکنر نے جرمن اخبار بِلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید بتایا کہ فوڈ انڈسٹری کا یہ رضاکارانہ فیصلہ یقینی طور پر صحت مندانہ رویے کا عکاس ہے۔ وزیر کے مطابق کھانے پینے کی مختلف اشیاء میں چینی، چربی اور نمک کی مقدار کو کم کرنا ایک اہم اقدام ہے کیونکہ ان چیزوں کے کثرت استعمال کے انسانی صحت پر مضر اثرات واضح ہیں۔
اخبار بِلڈ نے اس تناظر میں مزید واضح کیا ہے کہ بغیر الکوحل کے جرمن مشروب ساز کمپنیوں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ ہر قسم کے مشروبات میں چینی کی مقدار کو پندر فیصد تک کم کر دیا جائے گا۔ اسی طرح دودھ سے بنائی جانے والی مصنوعات میں بھی شکر کم کر دی جائے گی۔ ایسی کمپنیوں نے عزم کا اظہار کیا ہے کہ بچوں کے دہی میں شکر کی مقدار معمول کے دہی سے کسی صورت زیادہ نہیں رکھی جائے گی۔
اسی طرح جرمنی میں فریزر میں رکھنے والی منجمد خوراک کی تیاری میں بھی نئی فیصلوں کا اطلاق کیا جائے گا۔ ایک سو گرام کے منجمد پیزے میں نمک کی مقدار سوا گرام کم کر دی جائے گا۔ اسی طرح بیکریاں اور بیکنگ انڈسٹری بھی عام استعمال کی بریڈ میں نمک کی مقدار کو کم کر دے گی اور منجمد کیک اور پیسٹریوں میں چینی کی سطح کم رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
عام صارفین کی صحت کے لیے کیے جانے والے اس فیصلے کے تحت بسکٹ سازی میں بھی نمک، چینی اور چربی کے استعمال کو کم کر دیا جائے گا۔ جرمن وزیراتِ خوراک و زراعت اس کا تعین کرے گی کہ کس طرح بسکٹ بنانے میں کم سے کم چربی یا تیل کا استعمال کیا جائے۔
خوراک میں ملاوٹ کے حیران کن اسکینڈل
آسٹریلیا میں اسٹرابری میں سے سوئیاں نکلنے پر دنیا ششدر ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں خوراک میں ملاوٹ کے کئی اسکینڈل ماضی میں بھی سامنے آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
ستمبر سن 2018: آسٹریلین اسٹرابری میں سوئیاں
آسٹریلوی حکومت نے ملک بھر میں مختلف اسٹرابری کے ڈبوں میں سوئیوں کی موجودگی کی فوجداری تفتیش شروع کر دی ہے۔ سوئیوں والے اسٹرابری آسٹریلیا کی سات ریاستوں کے چھ اضلاع میں عام صارفين کے ليے دستیاب تھیں۔ سوئی والی ایک اسٹرابری کھانے کے سبب ایک شخص کو ہسپتال بھی لے جايا جا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/A. Laule
جنوری سن 2018: جرمنی ڈبل روٹی میں پنیں
رواں برس آسٹریلیا کے لوگوں کو اسٹرابری احتیاط سے کھانے کی تلقین کی گئی ہے تو جرمن لوگ بھی ڈبل روٹی کھانے میں احتیاط برتے آئے ہيں ۔ جنوری ميں جنوب مغربی جرمن شہر اوفنبیرگ کے ایک روز مرہ کی اشیاء کے اسٹور میں ڈبل روٹی کے علاوہ خوراک کی کئی دوسری اشیاء میں سے پنیں ملی تھیں۔
تصویر: picture-alliance
جرمنی: بچوں کی زہریلی خوراک اور بھتہ خوری
جرمن والدین میں سن 2017 میں اُس وقت خوف و ہراس پھیل گیا جب ماہِ ستمبر میں فریڈرش ہوفن شہر میں بچوں کی خوراک کے ایک جار میں سے زہریلا مواد ملا تھا۔ اس کے استعمال سے ایک بچے کی موت بھی واقع ہوئی۔ ایک پچپن سالہ شہری نے دھمکی دی کہ اگر اسے دس ملین یورو نہ دیے گئے تو مزید زہریلے مادے والے جار مارکیٹ ميں بھيج دیے جائیں گے۔ اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا اور اُس نے زہر ملانے کے جرم کا اعتراف بھی کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Keystone/J. Zick
پاکستان: زہریلی مٹھائی سے دو درجن س زائد ہلاکتیں
سن 2016 میں پاکستانی صوبے پنجاب میں زہریلے لڈو کھانے سے کم از کم تیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مٹھائی میں زہر ملانے کا واقعہ دانستہ تھا۔ مٹھائی فروش کے بھائی نے ایک معمولی تلخ کلامی کے بعد لڈو تیار کرنے کے مواد میں زہر ملا دیا تھا۔ اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان زہریلے لڈوؤں کے کھانے سے ستر سے زائد افراد کو موت و حیات میں مبتلا رہنا پڑا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
اٹلی: مضر پانی کی بوتلیں
سن 2003 میں اٹلی میں مضر پانی کی بوتلوں کی دستیابی کے بعد شدید عدم بےچینی پائی گئی۔ ان بوتلوں میں بلیچنگ پاؤڈر کا محلول اور ایسیٹون کے مادے ٹیکا لگانے والی سرنجوں سے منتقل کیے گئے تھے۔ پولیس نے ماحول دوستوں اور بنیاد پرست عناصر پر ایسا کرنے کا شبہ ظاہر کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Zennaro
امریکا: ٹائیلینول سے قتل
سن 1982 میں امریکی شہر شکاگو میں ایسے سات افراد ہلاک ہو گئے تھے، جنہوں نے درد سے نجات کی ایسی گولیاں کھائی تھیں جن میں سنکھیے زہر کے اجزاء موجود تھے۔ یہ معاملہ ابھی تک حل طلب ہے اور اس باعث کوئی بھی مشتبہ شخص حراست میں نہیں لیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد دوا ساز کمپنیوں سے مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ ایسی پیکنگ بنائے جن میں گولیاں ہر ممکن طریقے سے محفوظ رہ سکیں۔