1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اشیائے خوراک کے ضیاع سے بچاؤ: ضیافت کے لیے ’کوڑا‘

8 جنوری 2013

جرمن دارالحکومت برلن میں سماجی طور پر انتہائی باشعور دو خواتین ایسی بھی ہیں، جنہوں نے اپنی کھانا پکانے کی صلاحیت اور ہاتھ کے ذائقے کو ’بچی کھچی اشیائے خوراک کے ذریعے ضیافت‘ کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔

تصویر: Robert Kneschke/Fotolia

برلن کی رہنے والی ان دونوں خواتین نے سماجی سطح پر فلاحی مقاصد کی خاطر ضیافتوں کے لیے جو نیا طریقہ اپنایا ہے، اس میں مہمانوں کو جو کھانا پیش کیا جاتا ہے، وہ مختلف مارکیٹوں سے حاصل کی گئی ان اشیائے خوراک سے تیار کیا جاتا ہے، جنہیں ان کے مالک تاجروں نے پھینک دینا ہوتا ہے۔

ڈنر ایکسچینج پروگرام کی ضیافتوں میں گوشت سے تیار کردہ کوئی ڈش شامل نہیں ہوتیتصویر: picture-alliance / dpa / Stockfood

ان خواتین کے نام زارا مےوَیس اور زاندرا ٹائٹگے ہیں۔ انہوں نے برلن میں ایک ایسا ڈنر ایکسچینج پروگرام شروع کیا ہے، جس کا بنیادی مقصد اشیائے خوراک کے ضائع ہونے یا کیے جانے کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنا ہے۔ یہ دونوں خواتین ایسی ضیافتوں کے لیے جو کھانے تیار کرتی ہیں، وہ اُن تازہ اور ہو سکے تو اُن بائیو سبزیوں سے تیار کیے جاتے ہیں، جو مختلف بڑی مارکیٹوں یا دکانوں میں تاجروں کے لیے غیر اہم ہو جاتی ہیں اور جنہیں وہ کوڑے کے طور پر پھینک دینے کا سوچ رہے ہوتے ہیں۔

اس پروگرام کے تحت ہر مرتبہ قریب 30 افراد کھانے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ لازمی نہیں کہ وہ سب ایک دوسرے کو جانتے بھی ہوں۔ وہ سب ایک بڑی میز پر صرف سبزیوں سے تیار کردہ ایسا کھانا کھاتے ہیں، جس کی تیاری میں گوشت استعمال نہیں کیا جاتا۔ ایسی ضیافتوں کے لیے ہر بار کئی ڈشیں تیار کی جاتی ہیں اور ماحول ایسا ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کو کسی ریستوراں کے منظر کے بجائے یہ کسی پرائیویٹ ڈنر پارٹی کا ماحول محسوس ہوتا ہے۔

ایسی ڈنر پارٹیوں میں آنے والا ہر فرد 10 سے لے کر 15 یورو تک رقم چندے کے طور پر دیتا ہے۔ یہ رقم 13 اور 20 امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ اس طرح جمع ہونے والے مالی وسائل خوراک سے متعلق مختلف فلاحی امدادی منصوبے چلانے والی تنظیموں کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔

اس منصوبے کا مقصد خوراک ضائع کیے جانے کے خلاف عوامی شعور کی بیداری ہےتصویر: Fotolia/Bauer Alex

زارا مےوَیس کی عمر 29 برس ہے اور وہ ایک صحافی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اس خوراک یا اشیائے خوراک کے بارے میں زیادہ تخلیقی سوچ کا مظاہرہ کریں، جنہیں بچی کھچی اشیاء قرار دے کر کوڑے کے ڈبے میں ڈال دیا جاتا ہے‘۔ زارا مےوَیس کا کہنا ہے کہ اشیائے خوراک چاہے گھر کے ریفریجریٹر میں ہوں یا کسی دکان میں، وہ اور ان کی ساتھی زاندرا ٹائٹگے چاہتی ہیں کہ لوگوں کو اس پروگرام کے ساتھ اس طرح متاثر کیا جائے کہ وہ اشیائے خوراک کو ضائع کرنے سے پرہیز کریں اور اپنے بجٹ کو بہتر طور پر استعمال کریں۔

زاندرا ٹائٹگے کی عمر 30 برس ہے۔ وہ آرٹ کے نمونوں کی دیکھ بھال کا کام کرتی ہیں۔ یہ دونوں جرمن خواتین اسکول کی عمر سے ایک دوسرے کی دوست ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنا اپنا بچپن برلن میں دیوار برلن کے آر پار دو مختلف دنیاؤں میں گزارا ہے۔ ٹائٹگے کی پرورش کمیونسٹ نظام حکومت والی سابقہ مشرقی جرمن ریاست میں ہوئی تھی۔ زارا مےوَیس کا بچپن ما‌ضی میں عشروں تک تقسیم رہنے والے اس شہر کے مغربی حصے میں گزرا، جو اس دور کی وفاقی جرمن ریاست کا حصہ تھا۔

پھر ڈنر ایکسچینج پروگرام شروع کرنے سے پہلے کھانا پکانے کی شوقین ان دونوں نوجوان خواتین نے مل کر ایک دستاویزی فلم بھی بنائی، جس کا نام تھا Taste The Waste یعنی 'کوڑے کا ذائقہ چکھیے۔‘ ایک حالیہ سروے کے مطابق جرمنی میں ہر سال اتنی زیادہ اشیائے خوراک اور کھانا ضائع کر دیے جاتے ہیں کہ ان کی فی کس اوسط سالانہ مالیت کم از کم بھی 235 یورو بنتی ہے۔

(ij / mm (AFP

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں