اشیائے خورد و نوش کی عالمی تجارت اور صحت پر اس کے اثرات
17 ستمبر 2011اشیائے خورد و نوش کی عالمی تجارت ایک بڑا اور پر خطر کاروبار بن چکی ہے۔ دنیا بھر میں کھانے پینے کی جن اشیاء کی تجارت کی جاتی ہے ان میں بہت کم ہی کو صحت کے معیارات کے مطابق جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق ہر برس دنیا بھر میں ایک اعشاریہ آٹھ ملین افراد اسہال کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں، جس کی وجہ مضر صحت غذائی اشیاء یا پانی ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں رہنے والے افراد اس کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
اب امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے مضافات میں قائم جامعہ کے کیمپس میں ایک ایسا ادارہ بنایا گیا ہے جہاں غذائی اشیاء کو نہ صرف ٹیسٹ کیا جائے گا بلکہ اس حوالے سے بین الاقوامی ماہرین کو تربیت بھی دی جائے گی۔ اس ادارے کا نام ’فوڈ سیفٹی ٹریننگ لیبارٹری‘ ہے۔
لیب کی مینیجر جینی ڈی بوئس کا کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی لیبارٹری ہے جو کہ ای کولی تک کے بیکٹیریا کا پتہ چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ خیال رہے کہ چند ماہ قبل یورپ میں ای کولی بیکٹیریا کے پھیلاؤ کے باعث کئی افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ اس واقعے کے بعد ترقی یافتہ ممالک غذائی اشیاء کی ایک ملک سے دوسرے ملک درآمد و برآمد کے وقت صحت کے معیارات پورے کرنے کے حوالے سے نئے اصول طے کر رہے ہیں۔ امریکہ کی یہ لیبارٹری اس سلسلے کی کڑی ہے۔ امریکی محققین کو امید ہے کہ یہ ادارہ اس نوعیت کے مزید اداروں کے قیام میں معاون ثابت ہوگا۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک