اصلاحات کیسی اور کتنی؟ ایک سال بعد بھی طالبان تقسیم کا شکار
10 اگست 2022
افغنستان میں طالبان کے اقتدار کو قریب ایک سال ہو گیا ہے اور اب ان کی صفوں میں دراڑیں ابھرنا شروع ہو گئی ہیں۔ وجہ یہ سوال ہے کہ ملک میں کیسی اور کتنی اصلاحات کی جائیں کہ وہ طالبان کی قیادت کے لیے قابل برداشت بھی ہوں۔
اشتہار
نوے کی دہائی میں طالبان جب ہندو کش کی اس ریاست میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے عام شہریوں بالخصوص خواتین کی آزادیوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایسے اقدامات کیے تھے جنہیں بجا طور پر کریک ڈاؤن کا نام دیا گیا تھا۔
پھر گزشتہ برس جب افغانستان سے امریکی فوجیوں سمیت تمام غیر ملکی دستوں کا انخلا مکمل ہو گیا اور طالبان تحریک کے جنگجو اس ملک میں دوبارہ اقتدار میں آ گئے، تو ان کی قیادت نے عہد کیا تھا کہ طالبان کا یہ دوسرا دور اقتدار پہلے سے بالکل مختلف ہو گا۔
سطحی حوالے سے دیکھا جائے تو اس مرتبہ طالبان نے افغانستان میں اقتدار میں آ کر پہلے سے تھوڑا سا مختلف رویہ اپنایا ہے۔ مثلاﹰ کابل میں حکومتی اہلکار اب ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کرتے ہیں اور کھچا کھچ بھرے ہوئے سٹیڈیمز میں شائقین کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اسی طرح طالبان کے پہلے دور حکومت میں افغانستان میں اگر ٹیلی وژن پر ملک گیر پابندی لگا دی گئی تھی تو آج عام افغان شہریوں کو انٹرنیٹ کی سہولت بھی دستیاب ہے اور سوشل میڈیا تک رسائی بھی حاصل ہے۔
کابل میں طالبان کی حکومت والے موجودہ افغانستان میں لڑکیوں کو پرائمری اسکول تک تعلیم کی اجازت ہے اور افغان صحافی خواتین حکومتی ڈھانچے کے حصے کے طور پر مرد اہلکاروں کے انٹرویو کرتی بھی نظر آتی ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں طالبان کی پہلی حکومت کے دور میں تو یہ ناقابل تصور تھا۔
القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری ہلاک
02:15
اس حد تک طالبان کا موجودہ دور اقتدار پہلے سے مختلف تو ہے لیکن اتنا ہی اہم سوال یہ بھی ہے کہ طالبان کی حکومت افغان لڑکیوں کو پرائمری سے آگے کی سطح کی تعلیم کی اجازت کیوں نہیں دے رہی اور ملکی خواتین کو گزشتہ ایک سال کے دوران اجتماعی قومی زندگی سے کافی حد تک دور کیوں کر دیا گیا ہے؟
اشتہار
طالبان کی سخت گیر قیادت
افغان طالبان کی قیادت کا اندرونی حلقہ بہت سخت گیر سوچ کا حامل ہے۔ اس میں ایسے سابق جنگجوؤں کو بھی پوری نمائندگی حاصل ہے، جو ماضی میں سال ہا سال تک مسلح جدوجہد کر چکے ہیں۔ طالبان کی قیادت کا یہ حصہ کسی بھی طرح کی جامع تبدیلی کے خلاف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک ایسا کرنے سے سمجھا یہ جائے گا کہ جیسے طالبان نے مغربی دنیا میں اپنے انہی 'دشمنوں‘ کے آگے ہتھیار پھینک دیے ہیں، جن کے خلاف وہ عشروں تک لڑتے رہے ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے افغانستان سے متلعقہ امورکے ماہر ابراہیم باہس کہتے ہیں، ''افغان طالبان میں ایک دھڑا ایسا ہے جو اس عمل کے تسلسل کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، جسے وہ اصلاحاتی عمل کا نام دیتا ہے۔ دوسری طرف ایک ایسا دھڑا بھی ہے، جو یہ سوچتا ہے کہ اب تک کی بہت معمولی اصلاحات بھی دراصل بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔‘‘
افغانستان میں بے سہارا معاشرتی زوال
طالبان نے جب سے افغانستان میں حکومت سنبھالی ہے تب سے بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس ملک کی صورت حال ابتر ہے۔ نصف آبادی فاقوں پر مجبور ہے اور حکومت خواتین کے حقوق کو محدود کرنے میں مصروف ہے۔
تصویر: Ahmad Sahel Arman/AFP
بہت کم خوراک
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی شدید کمیابی کا سامنا ہے۔ لوگ بھوک اور خوراک کی دستیابی پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کو اب چین سے بھی امدادی خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک ترجمان کے مطابق افغانستان میں بھوک کی جو سنگین صورت حال ہے، اس کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ ترجمان نے بھوک سے مارے افراد کی تعداد بیس ملین کے قریب بتائی ہے۔
تصویر: Saifurahman Safi/Xinhua/IMAGO
خشک سالی اور اقتصادی بحران
سارے افغانستان میں لوگوں شدید خشک سالی اور معاشی بدحالی کی سنگینی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک ماہر ایتھنا ویب کا کہنا ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام بائیس ملین افغان افراد کی مدد کر چکا ہے۔ مزید امداد جاری رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کو ایک ارب تیس کروڑ درکار ہیں اور ورلڈ فوڈ پروگرام کا امداد جاری رکھنا اس پر منحصر ہے۔
تصویر: Javed Tanveer/AFP
انتظامی نگرانی سخت سے سخت تر
طالبان نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے سابقہ دور کے مقابلے میں اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن بتدریج ان کے اس دعوے کی قلعی کھلتی جا رہی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو سخت تر پابندیوں کا سامنا ہے۔ انہیں سیکنڈری اسکولوں تک کی رسائی سے روک دیا گیا ہے۔ تنہا اور بغیر مکمل برقعے کے کوئی عورت گھر سے نہیں نکل سکتی ہیں۔ تصویر میں کابل میں قائم چیک پوسٹ ہے۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
نئے ضوابط کے خلاف احتجاج
افغانستان کے قدرے لبرل علاقوں میں نئے ضوابط کے نفاذ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک احتجاج بینر پر درج ہے، ’’انہیں زندہ مخلوق کے طور پر دیکھا جائے، وہ بھی انسان ہیں، غلام اور قیدی نہیں۔‘‘ ایک احتجاجی بینر پر درج ہے کہ برقعہ میرا حجاب نہیں۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP
ایک برقعہ، قیمت پندرہ ڈالر
کابل میں ایک برقعہ فروش کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے نئے ضوابط کے اعلان کے بعد برقعے کی قیمتوں میں تیس فیصد اضافہ ہوا ضرور لیکن اب قیمتیں واپس آتی جا رہی ہیں لیکن ان کی فروخت کم ہے۔ اس دوکاندار کے مطابق طالبان کے مطابق برقعہ عورت کے لیے بہتر ہے لیکن یہ کسی عورت کا آخری انتخاب ہوتا ہے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP
ریسٹورانٹ میں اکھٹے آمد پر پابندی
مغربی افغانستان میں طالبان کے معیار کے تناظر میں قندھار کو لبرل خیال کیا جاتا ہے، وہاں مرد اور عورتیں ایک ساتھ کسی ریسٹورانٹ میں اکھٹے جانے کی اجازت نہیں رکھتے۔ ایک ریسٹورانٹ کے مینیجر سیف اللہ نے اس نئے حکم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حکم کے پابند ہیں حالانکہ اس کا ان کے کاروبار پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سیف اللہ کے مطابق اگر پابندی برقرار رہی تو ملازمین کی تعداد کو کم کر دیا جائے گا۔
تصویر: Mohsen Karimi/AFP
بین الاقوامی برادری کا ردِ عمل
طالبان کے نئے ضوابط کے حوالے سے عالمی سماجی حلقوں نے بااثر بین الاقوامی کمیونٹی سے سخت ردعمل ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کے وزرائے خارجہ نے ان ضوابط کے نفاذ کی مذمت کی ہے اور طالبان سے ان کو ختم کرنے کے فوری اقدامات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
7 تصاویر1 | 7
بیرون ملک منجمد اثاثے
امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کے دوران وہاں تبدیلی اور اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش تو کی مگر بالآخر طالبان کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے نہ روک سکے۔ مغربی دنیا نے اپنی کوششوں سے ہندو کش کی اس ریاست کو بینکاری کے عالمی نظام سے گزشتہ تقریباﹰ 20 برسوں سے باہر ہی رکھا ہوا ہے۔
اس تناظر میں افغانستان کے بیرون ملک موجود اربوں ڈالر کے اثاثے بھی منجمد ہیں، جنہیں کابل حکومت کے حوالے کرنے سے پہلے طالبان سے مطالبہ یہ کیا جاتا ہے کہ وہ ملک میں اصلاحات متعارف کرائے اور خواتین کے حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کا بھی احترام کرے۔
یہ بات طے ہے کہ جب تک طالبان کی موجودہ حکومت واضح پیش رفت کے ناقابل تردید اشارے نہیں دیتی، افغانستان کے یہ اثاثے کابل کو دوبارہ دستیاب ہو ہی نہیں سکتے۔ لیکن اس کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ افغان عوام کو عرصے سے بہت بڑے اقتصادی بحران کا سامنا ہے اور وہ ختم ہوتا اب بھی نظر نہیں آتا۔ اب کئی افغان شہری تو زندہ رہنے کے لیے اپنے جسمانی اعضاء فروخت کر دیتے ہیں یا پھر کچھ لوگ اپنے شیر خوار بچے اس لیے بیچ دیتے ہیں کہ اپنے کنبے پال سکیں۔
افغانستان دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بن سکتا ہے
افغانستان دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بننے کے دہانے پر ہے۔ گزشتہ اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دنیا بھر نے افغانستان کی امداد بند کر دی تھی۔ افغانستان کے حالیہ بحران سے متعلق چند حقائق اس پکچر گیلری میں
تصویر: Ali Khara/REUTERS
تئیس ملین افغان بھوک کا شکار
عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق چالیس ملین آبادی میں سے 23 ملین شہری شدید بھوک کا شکار ہیں۔ ان میں نو ملین قحط کے بہت بہت قریب ہیں۔
ملک کی آبادی کا قریب بیس فیصد خشک سالی کا شکار ہے۔ اس ملک کی ستر فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے اور ان کی آمدنی کا 85 فیصد حصہ زراعت سے حاصل ہوتا ہے۔
تصویر: Rahmat Alizadah/Xinhua/imago
اندرونی نقل مکانی
پینتیس لاکھ افغان شہری تشدد، خشک سالی اور دیگر آفتوں کے باعث اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ صرف گزشتہ برس ہی سات لاکھ افغان شہریوں نے اپنا گھر چھوڑا۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
غربت میں اضافہ
اقوام متحدہ کے مطابق اس سال کے وسط تک اس ملک کی 97 فیصد آبادی غربت کا شکار ہو سکتی ہے۔ طالبان کےا قتدار سے قبل نصف آبادی غربت کا شکار تھی۔ 2020 میں فی کس آمدنی 508 ڈالر تھی۔ اس سال فی کس آمدنی 350 ڈالر تک گر سکتی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق کم از کم دو ارب ڈالر کی امداد کے ذریعے ملکی آبادی کو شدید غربت سے غربت کی عالمی طے شدہ سطح پر تک لایا جا سکتا ہے۔
تصویر: HOSHANG HASHIMI/AFP
بین الاقوامی امداد
طالبان کے اقتدار سے قبل ملکی آمدنی کا چالیس فیصد بین الاقوامی امداد سے حاصل ہوتا تھا۔ اس امداد کے ذریعے حکومت کے اخراجات کا 75 فیصد پورا کیا جاتا تھا۔ ورلڈ بینک کے مطابق سالانہ ترقیاتی امداد، جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد معطل کر دی گئی، سن 2019 میں 4.2 ارب ڈالر تھی۔ یہ امداد سن 2011 میں 6.7 ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
خواتین کا کردار
خواتین کی ملازمت پر پابندی جیسا کہ طالبان نے کیا ہے وہ معیشت کو 600 ملین ڈالر سے لے کر ایک ارب ڈالر تک کا نقصان پہنچا سکتی ہے۔
تصویر: Haroon Sabawoon/AA/picture alliance
حالیہ امداد
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انسانی امداد کا ایک چھوٹا سا حصہ ابھی بھی اس ملک کو دیا جارہا ہے۔ 2021 میں افغانستان کو 1.72 ارب ڈالر کی امداد ملی۔ ب ج، ا ا (تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)
تصویر: HOSHANG HASHIMI/AFP/Getty Images
8 تصاویر1 | 8
آج کے افغانستان کی صورت حال
ہندو کش کی اس ریاست میں لڑکیوں کے زیادہ تر ہائی اسکول ایک سال سے بند ہیں۔ سرکاری ملازمتیں کرنے والی بہت سے خواتین اپنے روزگار سے محروم ہو چکی ہیں۔ افغان معاشرہ ایک قدامت پسند اسلامی معاشرہ ہے اور اس کے زیادہ تر حصوں میں موسیقی بجانے، شیشہ پینے اور تاش کھیلنے جیسی مصروفیات پر بھی طالبان کی طرف سے کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔
جہاں تک حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کی بات ہے، تو انہیں سختی سے کچل دیا جاتا ہے اور صحافیوں کو بھی مسلسل ڈرایا جاتا ہے یا جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
طالبان کے سپریم لیڈر کا طرز عمل
افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ کئی برسوں سے منظر عام پر دکھائی نہیں دیے۔ وہ طالبان کی نظریاتی طاقت کے گڑھ اور ملک کے جنوبی شہر قندھار میں رہتے ہیں اور اسلامی شریعت کی اپنی سخت گیر تشریحات کے نفاذ کے سلسلے میں اپنے مشیروں کے اس اندرونی حلقے سے مشاورت کرتے ہیں، جس میں مذہبی رہنما بھی شامل ہیں اور بہت تجربہ کار جنگجو کمانڈر بھی۔
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔
تصویر: picture alliance / newscom
11 تصاویر1 | 11
اس پس منظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ افغان طالبان کے لیے ملکی سطح پر کسی بھی تبدیلی کا فیصلہ کرنے کے لیے سیاسی اور اقتصادی بحرانوں سے پیدا شدہ حالات اتنے اہم ہیں ہی نہیں جتنے ان کی یہ تشویش کہ ان کو نظریاتی سطح پر کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔
تبدیلی پر آمادگی کب؟
طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ کی مشاورت کرنے والی کونسل کے ایک رکن اور ایک اسلامی مدرسے کے سربراہ عبدالہادی حماد کا کہنا ہے، ''اخوند زادہ نے اب تک جو بھی فیصلے کیے ہیں، ان سب کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی طرف سے دیے گئے مشورے ہی بنے۔‘‘
کئی ماہرین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اگر کبھی طالبان کو اپنا سیاسی وجود خطرے میں پڑتا محسوس ہوا تو کیا ان کی مرکزی قیادت اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر غور کر سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ طالبان اپنی نظریاتی توجہ منتشر کے بجائے مرکوز رکھنے کے عادی ہیں، اس لیے ایسا شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئے کہ طالبان اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوئی ضرورت محسوس کریں۔
م م / ع ا (اے ایف پی)
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔