حالیہ انتخابات میں اطالوی عوام کی جانب سے دائیں بازو کی جماعتوں پر ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اعتماد کیے جانے کے باوجود کہا جا رہا ہے کہ اٹلی یورپی یونین کی جانب سے طے کردہ ضوابط پر کاربند رہے گا۔
اشتہار
حالیہ انتخابات میں اٹلی میں دائیں بازو کی جماعتوں فائیواسٹار موومنٹ اور دا لیگ نے تاریخی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اتوار کے روز ہوئے ان انتخابات میں اطالوی سیاست منظرنامے میں واضح تبدیلی کا عنصر دیکھا گیا، جہاں ووٹروں نے عمومی جماعتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دائیں بازو کی جماعتوں کے نمائندوں کو ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد میں پارلیمان کے لیے منتخب کیا۔ تاہم ان انتخابات کے بعد وجود میں آنے والے پارلیمان معلق ہے، اٹلی میں کسی حکومت کے قیام میں کئی ہفتے حتی کہ مہینے تک لگ سکتے ہیں۔
رنگ، مستی اور سحر انگیزی، وینس کارنیوال شروع
یورپ کا مقبول ترین کارنیوال اطالوی شہر وینس میں شروع ہو گیا ہے۔ سولہ روزہ کارنیوال میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے لوگ اٹلی کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/T. Hennecke
یورپ کا مقبول ترین کارنیوال
وینس کارنیوال کو ریو ڈی جنیرو کے کارنیوال کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ مقبول اور مشہور ترین کارنیوال قرار دیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ یہ کارنیوال ستائیس جنوری کو شروع ہوا، جو ’ایش ویڈنس ڈے‘ سے ایک روز قبل یعنی تیرہ فروری تک جاری رہے گا۔
تصویر: AP
تخلیقی صلاحیت: کھیلوں کا شہر
اس برس اس کارنیوال کا مرکزی خیال ہے، ’Creatum: Civitas Ludens‘۔ اس کا ترجمہ ’تخلیقی صلاحیت: کھیل کا شہر‘ کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
صدیوں پرانی روایت
مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ وینس کارنیوال کا آغاز بارہویں صدی میں ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سن گیارہ سو باسٹھ میں ’جمہوریہ وینس‘ کی ایک بڑی جنگی کامیابی کے بعد ایک بڑے کارنیوال کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں مقامی لوگوں نے جشن منایا تھا۔ تب سے یہ کارنیوال ہر سال منایا جانے لگا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bertorello
پابندی اور احیاء
سن سترہ سو ستانوے میں رومن بادشاہ فرانسس دوم نے اس کارنیوال پر پابندی لگا دی تھی، جس کے بعد سن انیس سو انہتر تک یہ کارنیوال باقاعدہ سرکاری طور پر نہیں منایا جا سکا تھا۔ تاہم جب یہ پابندی ختم ہوئی تو اس کارنیوال کا اہتمام ایک نئے رنگ اور مستی سے دوبارہ کیا جانے لگا۔
تصویر: REUTERS/T. Gentile
رنگا رنگ لباس اور پرشکوہ انداز
وینس کارنیوال کے شرکاء میں ماسک ہمیشہ سے ہی مقبول رہے ہیں۔ موج مستی کرنے والے شرکاء مختلف رنگوں، اقسام اور شبیہوں والے ماسک پہنتے ہیں۔ ہر سال اس کارنیوال میں خوبصورت ترین ماسک پہننے والے کو ایک خصوصی انعام بھی دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Bianchi
خوبصورت ترین ماسک
خوبصورت ترین ماسک کس نے پہنا؟ اس کا فیصلہ کارنیوال کی ایک خاص جیوری کرتی ہے۔ اس جیوری میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی چیدہ چیدہ شخصیات کو جج بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/B. Seckin
دلفریب رقص
مہنگے کھانے اور دلفریب رقص وینس کارنیوال کے اہم جزو قرار دیے جاتے ہیں۔ ایسے کسی ایونٹ میں شامل ہونا کسی غریب شخص کے بس کی بات نہیں کیونکہ یہ انتہائی مہنگا شوق ہے۔
تصویر: Reuters/T. Gentile
مہنگے کھانے
اس کارنیوال میں کھانے اور رقص کی کسی روایتی محفل میں جانے کے لیے انفرادی طور پر کئی سو یورو ادا کرنا تو عام سی بات ہے۔
تصویر: REUTERS/A. Bianchi
گلوبل پارٹی
ایک اندازے کے مطابق اس مرتبہ اس سولہ روزہ کارنیوال میں تین ملین افراد شریک ہوں گے۔ ان افراد کا تعلق دنیا بھر سے ہو گا۔ ستائیس جنوری کو یہ پارٹی شراب نوشی اور رقص سے شروع ہوئی۔ حسب روایت شرکاء کی ایک بہت بڑی تعداد ’پیازا سان مارکو‘ یا سینٹ مارک اسکوائر میں موجود تھی۔
تصویر: picture-alliance/M. Chinellato
روشنیوں کی دنیا
فائر ورکس یا آتش بازی اور دریا کے کنارے مختلف ایونٹس اس کارنیوال میں انتہائی مقبول ہیں۔ سن دو ہزار اٹھارہ کے اس کارنیوال کے آغاز پر وینس میں موجود یہ لوگ شرکاء کو محظوظ کرنے کی خاطر کرتب دکھا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Silvestri
سکیورٹی ہائی الرٹ
یورپ میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ اس مرتبہ اٹلی میں منعقد ہونے والے اس تاریخی کارنیوال کے موقع پر بھی کسی ناخوشگوار واقعے کے پیش نظر سکیورٹی اہلکار گشت پر ہیں۔
اٹلی میں وزیراعظم ماتیو رینزی کی جماعت کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کی وجوہات ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، غربت میں اضافہ اور پچھلے چار برسوں میں اٹلی پہنچنے والے چھ لاکھ تارکین وطن جیسے موضوعات رہے۔
ان انتخابات میں یورپی یونین کی مخالفت کرنے والی جماعت فائیواسٹار موومنٹ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی، جسے قریب ساڑھے بتیس فیصد ووٹ ملے۔ اٹلی میں دوسری سب سے بڑی جماعت دی لیگ ہے، جسے 17 فیصد ووٹ ملے ہیں اور یہ جماعت مہاجرین کی شدید مخالف ہے۔
'موت کے راستے‘ پر زندگی داؤ پر لگاتے افغان مہاجر لڑکے
بیشتر تارکینِ وطن کو اٹلی سے فرانس کے درمیان بارڈر کراس کرنے کے لیے جس راستے پر سفر کرنا پڑتا ہے اسے ’ڈیتھ پاس‘ یا موت کا راستہ کہتے ہیں۔ یہ راستہ بے حد پُر خطر ہے۔ اس سفر کا اختتام بعض اوقات موت پر ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
جنگل میں
پولیس کے تعاقب سے خوفزدہ کم سن افغان لڑکوں کا ایک گروپ بارہ کلو میٹر لمبے ٹریک پر روانہ ہے۔ یہ راستہ ’ڈیتھ پاس ‘ کہلاتا ہے جو اونچی نیچی ڈھلانوں اور خطرناک پہاڑوں پر مشتمل ہے اور فرانس کے سرحدی قصبے ’مونتوں‘ تک جاتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
ایک دھوکے باز راستہ
وہ تارکین وطن جو اٹلی سے فرانس جانے کے لیے اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں اُنہیں سفر کے دوران پتہ چلتا ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہر پل موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دلدلی زمین، خطرناک موڑ اور پہاڑوں کا سفر بعض اوقات مہلک ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
زیرِزمین ٹنل
بہت سے مہاجرین فرانس جانے کے لیے جنگلات سے گزر کر ہائی وے تک جاتے ہیں جو اُنہیں اس باڑ تک لے آتی ہے۔ یہاں سے وہ ایک زیرِ زمین ٹنل سے پیدل گزرتے ہیں جو خود کو موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
فطرت پر انحصار
وہ تارکین وطن جو فرانس جانے کے لیے ’ڈیتھ پاس‘ کا انتخاب کرتے ہیں، عموماﹰ وہ یہ اقدام راستے کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر اور کھانے پینے کا سامان ہمراہ لیے بغیر ہی اٹھا لیتے ہیں۔
تصویر: DW/F.Scoppa
بوڑھے کسانوں کے اسٹور ہاؤس
مہاجرین اور تارکین وطن کبھی کبھار بوڑھے کسانوں کے خالی اسٹور ہاؤسز کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں اُنہیں پرانے کپڑے بھی مل جاتے ہیں۔ اپنے نسبتاﹰ صاف اور نئے کپڑوں کے مقابلے میں یہ پرانے کپڑے تبدیل کر کے تارکینِ وطن سمجھتے ہیں کہ اس طرح اُنہیں فرانس کی پولیس سے چھپنے میں مدد ملے گی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر نصب ایک پرچم سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کس مقام سے سرحد کے دوسری طرف جا سکتے ہیں۔ یہ باڑ فرانس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اٹلی کی جانب سے امیگریشن روکنے کے لیے تعمیر کی تھی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اب کیا کریں؟
افغان مہاجر لڑکے اندازہ لگا رہے ہیں کہ وہ فرانس کے قصبے مونتوں تک جانے کے لیے نیچے ڈھلانی راستے سے کس طرح اتریں۔ اس مقام پر اکثر تارکینِ وطن کو بارڈر پولیس پکڑ لیتی ہے اور اُنہیں واپس اٹلی بھیج دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
7 تصاویر1 | 7
مبصرین کے مطابق ان انتخابات سے یہ بات واضح ہے کہ اطالوی ووٹرز تارکین وطن کے بحران سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات سے ناخوش ہیں جب کہ انہیں یورپی یونین کی مہاجرین سے متعلق پالیسیوں پر بھی شدید غصہ ہے۔ تارکین وطن سے متعلق اطلاعات اور معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ انفومائیگرنٹس ڈاٹ نیٹ نے برسلز میں قائم یورپی پالیسی مرکز کی سینئر پالیسی تجزیہ کار ماری ڈے سومر کے حوالے سے کہا ہے کہ یورپی رہنماؤں کے لیے یہ صورت حال نہایت پریشان کن ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ اٹلی اور یونان میں موجود تارکین وطن کی دیگر یورپی ریاستی میں آباد کاری سے متعلق یورپی کمشین کا مجوزہ منصوبہ اب تک پوری طرح عملی شکل میں سامنے نہیں آیا اور اس کی وجہ یورپی یونین کی متعدد رکن ریاستوں کی جانب سے تارکین وطن کو قبول کرنے سے انکار ہے۔ مہاجرین کا کہنا ہےکہ اطالوی انتخابات کے بعد یورپی یونین تارکین وطن کے موضوع پر پالیسیوں میں تبدیلیوں پر توجہ ضرور دیں گے۔