اٹلی کے ایپلس کے پہاڑی سلسلے میں قیمتی دھاتوں اور مواد کی تلاش میں سرگرداں چینی ورکرز کی تعداد اتنی ہے کہ بولی جانے والی چینی زبان اس علاقے کو کسی ’چینی علاقے‘ کا رنگ دیتی ملتی ہے۔
اشتہار
دھول ایسی ہے کہ ہر منظر دھندلایا ہوا ہے۔ پتھروں پر پڑتی ضربوں کی آواز اور اڑتی دھول اس پورے علاقے میں مناظر کے بہت سے رنگ چھپا دیتی ہے، مگر یہاں موجود بہت سے چینی سنگ تراش کے درمیان بولی جانے والی زبان اس دھندلائے ہوئے منظر کو الگ ہی کوئی رنگ دیتی ملتی ہے۔
یہاں پتھروں میں موجود قیمتی مواد کی دیکھ بھال کے جملے اور قریب موجود ٹرمپ پر ان چٹانوں کے بڑے بڑے کٹے ہوئے ٹکڑوں کو چڑھایا جا رہا ہے۔ ٹرک پتھر لاد دیے جانے کے بعد نشیب کو سفر شروع کرے گا اور یہ پتھڑ چھوٹے سے دیہات باگنولو میمونتے اور بارگے میں قائم کارخانوں تک پہنچائے جائیں گے۔ یہ اس پورے علاقے کا روز مرہ کا معمول ہے۔ یورپ کے کسی ایک حصے میں چینی شہریوں کے ارتکاز کے اعتبار سے یہ علاقہ سب سے آگے ہے۔ اس علاقے میں چینی افراد کی تعداد مقامی آبادی کے قریب دس فیصد کے برابر ہے۔ اس علاقے میں چینی شہریوں کی موجودگی اس قدر ہے کہ برگے نامی قصبے میں ’ہو‘ سب سے زیادہ عمومی نام ہے۔
جمہوری دور کے ستر برس بعد بھی بھارت کے نوابی محل کی شان و شوکت برقرار
1944ء میں کئی شاہی مہمان ’عمید بھون محل‘ کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ پتھر سے تعمیر کیا گیا یہ شاہکار بھارت کے شمال مغربی شہر جودھ پور کی شان سمجھا جاتا یے۔
تصویر: Imago/Indiapicture
محل کا ایک حصہ ہوٹل ميں تبديل
سن 1944 کے تین سال بعد ہی بھارت برطانوی راج سے آزاد ہو گیا تھا۔ نتيجتاً ان نیم خودمختار نوابی ریاستوں کو ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا تھا۔ وقت کے ساتھ کئی شاہی خاندان ختم ہوگئے لیکن جس خاندان نے اس محل کو تعمیر کیا تھا وہ آج بھی جانا مانا خاندان ہے۔ اس خاندان نے محل کے ایک حصے کو ہوٹل ميں تبديل کر ديا ہے۔
تصویر: Imago/Indiapicture
عمارت کا نام مہاراجہ عمید سنگھ کے نام پر رکھا گیا
اس ہوٹل کے مینیجر مہر نواز آواری کا کہنا ہے،’’دنیا میں کتنے ایسے ہوٹل ہوں گے جہاں آپ کے قریب ہی مہاراجہ رہتا ہو۔ ہم اپنے مہمانوں کو ایسا محسوس کراتے ہیں جیسے کہ وہ بادشاہ یا ملکہ ہوں۔‘‘ اس شاندار عمارت کا نام مہاراجہ عمید سنگھ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یہ مارور راٹھور خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔ اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے قرنی سنگھ جاسول کا کہنا ہے کہ محل کی تعمیر کا آغاز سن 1929 میں شروع ہوا تھا۔
تصویر: Imago/imagebroker
بھارت میں 1971ء میں تمام شہریوں کو برابر قرار دے دیا گیا تھا
برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھارت کی کئی نوابی ریاستوں نے جمہوری حکومت میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ ابتدائی طور پر انہوں نے اپنے عہدے، جائیداد اور کچھ حد تک خودمختاری اپنے پاس رکھی۔ تاہم 1971ء میں بھارتی آئین میں تبدیلی کی گئی جس کے تحت تمام شہریوں کو برابر قرار دیا گیا اور شاہی مراعات کو ختم کر دیا گیا۔ يوں ریاست کی جانب سے ايسی نوابی رياستوں کو پیسے ملنا بھی بند ہو گئے۔
تصویر: Imago/Xinhua
نوابی خاندان مشکل میں پڑ گئے تھے
مراعات ختم ہونے کے بعد اور اس بے یقینی کے ساتھ کہ وہ ایک عام شہری کی طرح کس طرح رہیں گے، کئی نوابی خاندان مشکل میں پڑ گئے تھے۔ جاسول کا کہنا ہے کہ ان نوابی خاندانوں کو جو محلات یا عمارتیں ملیں وہ ایک سفید ہاتھی کی مانند تھیں۔ ان کے پاس پیسہ نہیں تھا جس سے کہ وہ کوئی کاروبار شروع کر سکتے۔ لیکن جودھ پور کے سنگھ خاندان نے اپنی جائیداد کو اچھی طرح سنبھالا بھی اور اس کو بڑھايا بھی۔
تصویر: Imago/J. Kruse
جودھ پور شہر کی معیشت میں اس محل کا اہم کردار
مہاراجہ عمید سنگھ کا پوتا صرف چار برس کا تھا جب 1952ء میں اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ یہ بچہ عمید سنگھ محل اور دیگر خاندانی زمینوں کا اکلوتا وارث بن گیا۔ 1971 ء میں قانون میں تبدیلی کے بعد نوجوان سنگھ نے محل کے ایک حصے کو ہوٹل بنا دیا اور ایک حصے کو عوام کے لیے عجائب گھر بنا دیا۔ آج جودھ پور شہر کی معیشت میں اس محل کا اہم کردار ہے۔
تصویر: Imago/imagebroker
معاوضہ پانچ سو امریکی ڈالر سے لے کر بارہ ہزار امریکی ڈالر
محل میں ہی گاج سنگھ کا گھر بھی ہے اور 64 کمروں پر مشتمل ہوٹل بھی۔ اس ہوٹل میں ایک رات کی رہائش کا معاوضہ پانچ سو امریکی ڈالر سے لے کر بارہ ہزار امریکی ڈالر تک ہے۔
تصویر: Imago/imagebroker
ہزاروں مقامی افراد کو روزگار میسر
شاہی خاندان نے علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کافی کام کیا ہے۔ پانی کے ذخائر بڑھانے کے علاوہ يہ خاندان تعلیمی اور ثقافتی فلاح و بہبود کا کام بھی کر رہا ہے۔ ان منصوبوں سے ہزاروں مقامی افراد کو روزگار ملا ہے۔
تصویر: Imago/Indiapicture
7 تصاویر1 | 7
اس علاقے میں چینی شہریوں کی آمد کا سلسلہ قریب 20 برس قبل شروع ہوا تھا۔ یہ چینی یہاں کیوں آئے؟ جواب یہ ہے کہ اس علاقے میں موجود لُوسیرنا پتھر انہیں اپنی جانب کھینچ لایا۔ اس علاقے میں ’سرمئی سونا‘ نامی یہ پتھر مقامی اقتصادیات کے ایک ستون کی طرح ہے۔ یہ پتھر کئی تہوں پر مبنی ہے اور تعمیراتی شعبے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے سے اب تک قریب ڈیڑھ لاکھ ٹن لُوسیرنا نکالا جا چکا ہے جب کہ یہاں قریب 85 مختلف گھاٹیوں میں یہ کام جاری ہے۔ یہاں کام کرنے والی کمپنیوں کے مطابق سن 2008ء میں اس صنعت کو شدید دھچکا پہنچا تھا اور تب سے تعمیری شعبے میں اس کی کھپت میں خاصی کمی ہوئی ہے۔
یہ ہیرا آیا کہاں سے؟
05:24
اطالوی شہر میلان میں ایک چینی لیجنڈری شخصیت ڈینگ لُنچیاؤ نے سن 1994ء میں پتھر کی سِل دیکھی تھی۔ یہ سِل لُوسیرنا پتھر کی تھی۔ اسی کے تعاقب میں وہ بیرگے تک پہنچے اور پھر اس پتھر میں چینی باشندوں کی دلچپسی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کا حصول ایک صنعت بن گیا۔ اس علاقے میں ایک طویل عرصے تک مختلف فیکٹریوں کو افرادی قوت کی ضرورت رہتی تھی جب کہ انہیں مزدور نہیں ملتے تھے اور اسی وجہ سے ڈینگ نے پتھر کی اس صنعت میں ملازمتوں کے لیے چینی باشندوں کے لیے دروازے کھول دیے۔ تبھی سے چینی باشندے یہاں موجود ہیں اور اب یہ علاقہ اطالوی زبان کے ساتھ ساتھ چینی زبان کے صوت سے گونجتا رہتا ہے۔