اطالوی شہرمیں رات بارہ بجےکے بعد آئس کریم کی فروخت پر پابندی
23 اپریل 2024اطالوی شہر میلان کی انتظامیہ نے شہر میں رات بارہ بجے کے بعد آئس کریم کی فروخت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔شور شرابے کی وجہ سے متاثر ہونے والے لوگوں کے 'سکون' کواس کا جواز بنایا گیا ہے لیکن دکانداروں کا کہنا ہے کہ اس سے ان کا کاروبار متاثر ہوگا۔
اب آئس کریم دیر سے پگھلا کرے گی، لیکن کیسے؟
اطالوی شہر میلان کی مقامی انتظامیہ نے ایک نیا قانون تجویز کیا ہے، جس کے منظور ہوجانے کی صورت میں اگلے ماہ سے نصف رات کے بعد سے آئس کریم کی فروخت پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ اس تجویز پر تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔
مجوزہ قانون کے مطابق میلان کے بارہ اضلاع میں، جہاں رات کو سب سے زیادہ چہل پہل رہتی ہے، مشروبات، تیار کھانوں بشمول پیزا، آئس کریم اور مشروبات کی فروخت پر نصف شب کے بعد پابندی عائد کردی جائے گی۔ فیصلے کی وجہ شہرکی گلیوں میں آدھی رات کے بعد وہاں موجود لوگوں کی طرف سے ہونے والا شور شرابہ ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس شور شرابے سے رات کو ان کا سکون غارت ہوجاتا ہے۔
روسی آئس کریم کمپنی کی اچھوتی، طنزیہ پیشکش: ’چھوٹا اوباما‘
اسرائیلی وزیر اعظم نے آئس کریم کمپنی کو دھمکی کیوں دی ہے؟
میلان کے ڈپٹی میئر مارکو گرانیلی نے فیصلے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا،"ہمارا مقصد سماجی سرگرمیوں اور تفریح نیز آبادی کے لیے امن و سکون اور آزاد اقتصادی سرگرمیوں کے درمیان توازن پیدا کرنا ہے۔"
شہر کے میئر نے گزشتہ دنوں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقامی آبادی کے ایک بڑے حصے نے شو شرابے کی شکایت کی ہے۔
امید ہے کہ اس پابندی کا اطلاق سات مئی کوہوجائے گا اور نومبر کے اوائل کے برقرار رہے گا۔
یہ'آئس کریم کے خلاف اعلان جنگ' ہے
اگرچہ اس فیصلے میں ہر قسم کے تیار کھانے شامل ہیں لیکن ناقدین نے خاص طور پر آئس کریم کی دکانوں پر پابندی پر اعتراض کیا ہے۔ آئس کریم کے گاہکوں کو رات گئے تک سروس فراہم کرنا اطالوی ثقافت کا ایک موروثی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ دائیں بازو کے ایک اخبار نے کہا کہ آئس کریم کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ کاروباری شعبے کے نمائندوں نے بھی ان اقدامات پر تنقید کی۔
اطالوی خردہ فروش کاروباریوں کی تنظیم 'کونفکومارسیو' کی میلان یونٹ کے سکریٹری جنرل مارکو باربائری کا کہنا تھا،" ایک اوسط اطالوی خاندان گرمیوں میں کیا کرتا ہے؟ وہ رات کا کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی اور آئس کریم کھانے نکلتے ہیں۔ یہ ایک دیرینہ روایت ہے، اس لیے یہ واضح ہے کہ اگر آپ اس طرح کے ثقافتی عادت میں مداخلت کریں گے تو لوگوں کو خوشی نہیں ہوگی۔"
باربائری نے شور شرابے کی وجہ سے مقامی لوگوں کو ہونے والی پریشانیوں کا اعتراف کیا تاہم کہا کہ اس فیصلے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا،"چہل قدمی کے دوران لوگوں کو پانی کی بوتل خریدنے یا آئس کریم یا پیزا کھانے سے روکنے سے مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ" کیا انتظامیہ نے ان سیاحوں کے بارے میں بھی سوچا ہے؟ جو آدھی رات کے بعد آئس کریم کھانا چاہتے ہیں۔ آخر انتظامیہ کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟"
بھارت میں اب آئس کریم اور مسلم ڈرائیور بھی شدت پسند ہندوؤں کے نشانے پر
دوسری طر ف میلان کے میئر گیسیپے سالا کا کہنا تھا کہ،"میں لوگوں کو ہونے والی پریشانیوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا...ہم کوئی ایسا قانون نہیں بنانے جارہے ہیں جس سے آسمان گر جائے گا بلکہ بہت معمولی ضابطے نافذ کررہے ہیں۔"
ہاسپیٹلیٹی ایسوسی ایشن کے صدر لینو اسٹوپانی نے انتظامیہ کے فیصلے کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا،"رات کے وقت شور شرابہ مسئلہ ہے لیکن اس قانون سے کاروباریوں کو کافی نقصان ہوگا۔"
ماضی میں بھی اس طرح کی پابندی عائد کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ میلان کے حکام نے سن 2013میں بھی نصف شب کے بعد آئس کریم فروخت کر نے پر پابندی کی ایک تجویز پیش کی تھی لیکن کئی ہفتوں کے گرماگرم بحث اور احتجاج کے بعد انتظامیہ نے اپنا ارادہ بدل دیا تھا۔
ج ا/ ص ز (خبر رساں ادارے)