اطالوی شہری کے قتل میں اپوزیشن ملوث، بنگلہ دیشی وزیر داخلہ
28 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیشی وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال نے بتایا کہ پولیس حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یا بی این پی کے رہنما ایم اے قیوم کی تلاش میں ہے۔ کمال نے الزام عائد کیا ہے کہ ایم اے قیوم نے ہی اطالوی امدادی کارکن کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ پچاس سالہ اطالوی شہری سیزر ٹویلا کے قتل کا واقعہ گزشتہ ماہ ڈھاکہ کے ایک انتہائی محفوظ علاقے میں پیش آیا تھا۔
پولیس نے ابھی پیر کے روز ہی اس واقعے میں ملوث ہونے کے شبے میں چار افراد کو حراست میں لینے کا اعلان کیا تھا۔ ان میں سے تین نے مبینہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے 28 ستمبر کو یہ قتل ’بگ برادر‘ کے حکم پر کیا۔ وزیر داخلہ کے مطابق ایم اے قیوم ہی یہ ’بگ برادر‘ ہیں۔ اندازہ ہے کہ ایم اے قیوم ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ ان کا شمار بی این پی کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے اور وہ ڈھاکہ کے کونسلر بھی رہ چکے ہیں۔
کمال کے مطابق پولیس کے پاس اس حوالے سے واضح ثبوت موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حزب اختلاف ملک میں افراتفری پھیلاتے ہوئے حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی تھی تاہم انہوں نے اس مبینہ سازش کی مزید وضاحت نہیں کی۔ ڈھاکہ کے سفارتی علاقے میں اطالوی امدادی کارکن کا قتل اپنی نوعیت کا ایسا پہلا واقعہ تھا، جس کی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ بعد ازاں اس شدت پسند تنظیم نے ایک بیان بھی جاری کیا تھا کہ شمالی بنگلہ دیش میں ایک جاپانی کسان کو بھی اسی گروپ کے ایک انتہا پسند نے موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
بی این پی کے سیکرٹری جنرل فخر الاسلام عالمگیر نے ملکی وزیر داخلہ کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ’ناقابل قبول اور نا قابل یقین‘ قرار دیا ہے۔ ’’ہم نے حکومت سے واضح انداز میں کہہ دیا ہے کہ وہ اس واقعے کو حزب اختلاف کے خلاف استعمال کرنے کی بجائےاس قتل کی مکمل تحقیقات کرائے۔‘‘ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے طور پر بی این پی اور جماعت اسلامی کے درمیان سیاسی قربت کی وجہ سے موجودہ حکومت اکثر اس جماعت پر ملک میں بدامنی پھیلانے کے الزامات عائد کرتی رہتی ہے۔