بھارت کی ’کولہا پوری چپّلوں‘ کا تنازع کیا ہے؟
3 جولائی 2025
میلان مینز فیشن ویک میں گزشتہ ہفتے جب ان چپلوں کی نمائش کی گئی، تو انہیں صرف ’’چمڑے کے سینڈل‘‘ کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔
لیکن ان فلیٹ چمڑے کے سینڈل نے بھارتی فیشن کے ناقدین، دستکاروں اور سیاست دانوں کے درمیان ایک تنازع کو جنم دیا۔ جن کا کہنا تھا کہ یہ ڈیزائن روایتی کولہا پوری چپّلوں سے چوری کیا گیا ہے۔ اس سینڈل کا نام مغربی ریاست مہاراشٹرا کے شہر کولہا پور کے نام پر رکھا گیا ہے۔ دستکاری کے پیٹرن والے ہاتھوں سے تیار کیے جانے والے ان چپلوں کی جڑیں بارہویں صدی سے ملتی ہیں۔
پاکستان کی پہچان پشاوری چپل اب یورپ میں بھی مقبول
پرادا نے فی الحال ان سینڈلوں کو فروخت کے لیے مارکیٹ میں نہیں اتارا ہے لیکن لگژری فیشن برانڈ آئٹمز کے طور پر، اس کا ایک جوڑا عام طور پر بارہ سو ڈالر سے زیادہ میں فروخت ہو سکتا ہے۔ جب کہ کولہاپوری کے مستند سینڈل مقامی بازاروں میں صرف بارہ ڈالر میں مل سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہنگامے کے بعد، مہاراشٹر چیمبر آف کامرس نے پرادا سے اس ڈیزائن کی بھارتی جڑوں کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔
پرادا کا ردعمل
ثقافتی تفریق کے بڑھتے ہوئے الزامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، پرادا کے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے سربراہ اور کمپنی کے مالکان کے بیٹے لورینزو برٹیلی نے چیمبر آف کامرس کو بھیجے گئے ایک خط میں ڈیزائن کی بھارتی جڑوں کو تسلیم کیا۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق، برٹیلی نے خط میں لکھا، ’’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سینڈل روایتی بھارتی دستکاری کے جوتے سے متاثر ہیں، جن کی ایک مکمل ثقافتی ورثے کی تاریخ ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ سینڈل ابھی ابتدائی ڈیزائن کے مرحلے میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ مارکیٹ تک نہ پہنچ سکیں، لیکن یہ کہ پرادا ’’ذمہ دارانہ ڈیزائن کے طریقوں، ثقافتی روابط کو فروغ دینے، اور مقامی بھارتی کاریگر برادریوں کے ساتھ بامعنی تبادلے کے مکالمے کے لیے پرعزم ہے، جیسا کہ ہم ماضی میں ان کے دستکاری کی صحیح پہچان کو یقینی بنانے کے لیے دوسرے معاملات میں کر چکے ہیں۔‘‘
ایسا ہی ایک معاملہ 10 سال پہلے ہوا تھا
ڈیزائنرز پر ثقافتی تفریق اور ان کے بنیادی ذرائع کو پہچاننے میں ناکام رہنے کا اکثر الزام لگایا جاتا ہے۔
سن دو ہزار چودہ میں، برطانوی فیشن ڈیزائنر پال اسمتھ کو اس وقت سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے سیاہ چمڑے کے سینڈلوں کو ’’رابرٹ‘‘ کے نام سے متعارف کرایا۔
فیشنوں میں سب سے مہنگا سادگی کا فیشن
پاکستانیوں نے کہا کہ یہ ڈیزائن تو روایتی پشاوری (یا چارسدہ) چپل کی نقل ہے۔ پال اسمتھ کے تیار کردہ ان چپّلوں کی قیمت پاکستان میں مقامی مارکیٹ میں اسی طرح کے چپلوں کے مقابلے بیس گنا زیادہ تھی۔
سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید اور آن لائن پٹیشن کے بعد، ڈیزائنر نے جلدی سے جوتے کی تفصیل میں یہ اضافہ کردیا کہ یہ ’’پشاوری چپل‘‘ سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے۔
کولہا پوری چپل پیٹنٹ نہیں
مہاراشٹر چیمبر آف کامرس نے اب کولہا پوری چپلوں کو پیٹنٹ کروانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مستقبل میں کاپی رائٹ کی عالمی خلاف ورزی سے بچا جا سکے۔
اپنی پائیداری کے لیے مشہور، روایتی فلیٹ سینڈل پہلے ہی ملک کے اندر جغرافیائی اشارے (جی آئی) ٹیگ کے ذریعے محفوظ ہیں۔ جی آئی ٹیگ کے تحت ان اشیا کی فہرست دی گئی ہے جن کی ساکھ ان کی جغرافیائی اصل سے منسوب ہے، اور اجازت یا فوائد کا اشتراک کیے بغیر تجارتی فائدے کے لیے ان اشیاء کے ڈیزائن کی کاپی کرنا، کم از کم ملک کے اندر، غیر قانونی ہے۔
عالمی شہرت یافتہ فیشن ڈیزائنر پاکو رابان کی موت، ایک عہد کا خاتمہ
بھارت میں سن دو ہزار چوبیس تک جی آئی ٹیگ کے ذریعہ چھ سو تین اشیاء رجسٹرڈ ہیں۔
دریں اثنا ریاست کے کولہا پور ضلع سے ممبر پارلیمنٹ، دھننجے مہادک، جن کا تعلق حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے ہے، کولہا پوری سینڈل بنانے والوں کی حمایت میں آگئے ہیں، جو پرادا کے خلاف بمبئی ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کرنے والے ہیں۔
ج ا ⁄ ص ا (الزبتھ گرینیئر)