اعتزاز حسن کے لیے ستارہ شجاعت
11 جنوری 2014پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کے دفتر کے مطابق صدر ممنون حسین کو سفارش کی گئی ہے کہ وہ ’’شہید اعتزاز حسن کو ستارہ شجاعت دینے کی منظوری دیں‘‘۔ وزیر اعظم کے دفتر سے آج جمعہ 11 جنوری کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ’’شہید اعتزاز حسن کے بہادرانہ عمل نے سینکڑوں طلبہ کی جان بچائی اور بہادری اور حب الوطنی کی روشن مثال قائم کی ہے۔‘‘
15 سالہ نوعمر طالب علم اعتزاز حسن کو اپنی جان کی قربانی دے کر اپنے اسکول کے سینکڑوں طلبہ اور اساتذہ کی جان بچانے پر ایک قومی ہیرو کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ اعتزاز نے پیر چھ جنوری کو پاکستانی صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ہنگو میں اپنے اسکول پر خودکش حملہ کرنے والے روکا تھا جس پر اس نے اسکول کے گیٹ پر ہی خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ یہ نوجوان طالب علم شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا۔ اس خودکش دھماکے میں کوئی اور ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھا۔
اعتزاز حسن کے ایک دلیرانہ اقدام کے بعد پاکستان بھر سوشل میڈیا پر اس نوجوان کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی اخبارات، ٹیلی وژن چینلز اور سوشل میڈیا پر لوگوں کی طرف سے اس نوجوان کو ایک ہیرو قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسے ملک کے سب سے بڑے بہادری کے اعزاز سے نواز جائے۔
اعتزاز حسن کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں پاکستانی نوجوان طالبہ ملالہ یوسفزئی بھی شامل ہیں جو خود بھی طالبان کی طرف سے کیے جانے والے حملے میں شدید زخمی ہوئی تھیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے لیے لڑنے کے جرم میں طالبان کا نشانہ بننے والی اس طالبہ کو دنیا بھر میں پزیرائی ملی اور انہیں کئی ملکی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔ انہیں گزشتہ برس امن کے نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ ملالہ یوسفزئی کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ’’اپنی جان کی قربانی دے کر اعتزاز نے سینکڑوں معصوم طلبہ کو ہلاک ہونے سے بچا لیا۔‘‘ ملالہ کے بیان کے مطابق اس نوجوان کی بہادری کو کبھی بھی بھلایا نہیں جانا چاہیے۔
اعتزاز کے والد مجاہد علی بنگش نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو جمعرات کے روز بتایا تھا کہ انہیں اپنے نوجوان بیٹے کی دلیرانہ موت پر دکھ کی بجائے فخر ہے۔ 55 سالہ مجاہد کا کہنا تھا، ’’میں خوش ہوں کہ میرا بیٹا ایک اچھے مقصد کے لیے قربانی دے کر شہید ہوا ہے۔‘‘ مجاہد علی بنگش متحدہ عرب امارات میں ملازمت کرتے ہیں۔
خیبر پختونخواہ پولیس کے اہلکار شاکر اللہ بنگش نے جمعرات 10 جنوری کو اے ایف پی کو بتایا کہ اعتزاز نے خود کش حملہ آور کو اپنے اسکول سے 150 فٹ کے فاصلے پر روکا جس میں 1000 کے قریب طالب علم پڑھتے ہیں۔