اعزازی سفارت کار اور سفارتی حیثیت کا غلط استعمال: نئی تحقیق
16 نومبر 2022
ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ اعزازی سفارت کار مقرر کیے گئے افراد کیسے کیسے ممکنہ خطرات کی وجہ بنتے ہیں۔ ایسے غیر پیشہ ور سفارت کار رضا کار ہوتے ہیں اور ان سے متعلق قوانین اور ان کی نگرانی کے ضوابط بھی بہت مبہم ہیں۔
اشتہار
جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو اور اس کے پارٹنر اداروں کی طرف سے مشترکہ طور پر کئی گئی چھان بین سے انکشاف ہوا ہے کہ اعزازی قونصل جنرل تعینات کیے گئے سفارت کار بین الاقوامی سفارت کاری کے ایسے کردار ہوتے ہیں، جن سے متعلق آج تک سب سے کم قانون سازی کی گئی ہے۔ کئی واقعات میں تو اس حیثیت کو مجرمانہ پس منظر کے حامل افراد حتیٰ کہ دہشت گرد بھی اپنے فائدے اور تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اعزازی قونصل کن حالات میں کام کرتے ہیں؟
ایسے رضار کار سفارت کار یا اعزازی قونصل قانونی طور پر ایک غیر شفاف صورت حال میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ انہیں دنیا بھر میں جزوی طور پر سفارتی مامونیت تو حاصل رہتی ہے مگر ان کی مصروفیات کی نگرانی کا کوئی نظام تقریباﹰ ہوتا ہی نہیں۔ اسی لیے ایسی کوئی حیثیت یوں بھی استعمال کی جاتی ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کے لیے خطرہ بھی بن سکتی ہے۔
'شیڈو ڈپلومیٹس انویسٹی گیشن‘ نامی اس چھان بین میں ڈی ڈبلیو کے علاوہ کئی دیگر میڈیا اداروں نے بھی حصہ لیا۔ اس چھان بین سے پتہ یہ چلا کہ اعزازی قونصل بنائے گئے افراد کی مانیٹرنگ کا نظام بہت ہی ناقص ہے اور اس حیثیت کو ایسے افراد بکثرت استعمال کرتے ہیں، جو اس راستے سے خود کو امیر بنانا چاہتے ہیں، کسی نہ کسی سیاسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں یا پھر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نفاذِ قانون سے بچنا چاہتے ہیں۔
ترکی کی مثال
ڈی ڈبلیو کے ترک زبان کے شعبے نے اپنے طور پر ایک ایسا ڈیٹا بینک تیار کیا ہے، جو ان مقامی افراد سے متعلق ہے، جو ترکی میں رہتے ہیں اور اعزازی قونصل کے سفارتی حیثیت کے حامل ہیں۔ اس فہرست میں مجموعی طور پر 328 افراد شامل ہیں اور ان میں سے 22 سیاستدان ہیں۔ ایسے بائیس ترک سیاست دانوں میں سے 14 کا تعلق ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی سیاسی پارٹی سے ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سوا تین سو سے زائد ترک شخصیات میں سے کم از کم 50 ایسی ہیں، جو مختلف طرح کے اسکینڈلوں میں ملوث رہی ہیں۔
ایسے افراد کے خلاف لگائے جانے والے الزامات میں منشیات کی اسمگلنگ سے لے کر نام نہاد برآمدات، جعلسازی سے بھرے جانے والے ٹینڈر اور غیر قانونی جوئے میں ملوث ہونے کے الزامات بھی شامل ہیں۔ مزید یہ کہ ایسی شخصیات کے خلاف مختلف عدالتوں میں مقدمات بھی چلے، لیکن کسی کو بھی کوئی حتمی سزا نہ سنائی گئی۔
ایسے اسکینڈل صرف ترکی ہی میں نہیں ہوتے
اعزازی سفارت کاروں کا مختلف طرح کے اسکینڈلوں میں ملوث ہونا صرف ترکی ہی میں دیکھنے میں نہیں آتا۔ 'شیڈو ڈپلومیٹس انویسٹی گیشن‘ کے نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اعزازی سفارت کار ہونا بین الاقوامی سفارت کاری کا طویل عرصے سے نظر انداز کیا جانے والا ایسا پہلو ہے، جسے ہتھیاروں کے تاجر، قاتل، جنسی جرائم کے مرتکب افراد، حتیٰ کہ جعلساز اور دھوکے باز بھی دنیا بھر میں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔
چند پہلو تو ایسے بھی سامنے آئے کہ اسی عدم نگرانی سے فائدہ اٹھانے والوں میں دہشت گرد بھی شامل تھے۔ اس بہت جامع تحقیق سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ اعزازی قونصل سسٹم کا مقصد بنیادی طور پر تو یہ تھا کہ اس کے ذریعے مختلف معاشروں میں بہت باوقار شہریوں کی فراخ دلی کو سفارت کاری کے لیے استعمال کیا جائے، لیکن اب یہی نظام بظاہر ایک ایسا ڈھانچہ بنتا جا رہا ہے، جو دنیا بھر میں قانون کی حکمرانی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔
گھر سے دور رہتے ہوئے اعزازی سفارت کاری
دنیا بھر میں اس وقت مختلف ممالک میں کُل کتنے اعزازی قونصل کام کر رہے ہیں، اس بارے میں اعداد و شمار قطعی غیر واضح ہیں۔ پھر بھی اندازہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔
ان اعزازی سفارت کاروں میں سے ایک اونگ موئے میئنٹ بھی ہیں، جو میانمار میں بیلاروس کے اعزازی قونصل ہیں۔ ان کی کمپنی نے میانمار میں حکمران اور گزشتہ برس سے ملک پر خونریز طریقے سے حکومت کرنے والی ملکی فوج کی میزائل اور طیارے خریدنے میں مدد کی تھی۔
اسی طرح ایک اور مثال لادسلاو اوتاکار سکاکال کی ہے، جو مصر میں اٹلی کے ایک سابقہ اعزازی سفارت کار ہیں۔ انہوں نے مصر میں زمانہ قدیم کی حنوط شدہ لاشوں کے پانچ ماسک، 21 ہزار سے زائد تاریخی سکے اور لکڑی کا ایک قدیم تابوت تک مصر سے باہر اسمگل کرنے کی کوشش کی تھی۔
یہ سب تاریخی اشیاء ایک ایسے سفارتی کنٹینر میں بند تھیں، جس پر سکاکال کا نام اور ان کا سابقہ سفارتی عہدہ بھی لکھا ہوا تھا۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق یہ تمام نوادرات مصر سے اطالوی شہر سالیرنو بھیجے گئے تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ دستاویزی تفصیلات میں ایک غلطی کی وجہ سے اطالوی حکام نے جب اس کنٹینر کی تلاشی لی، تو اس میں سے وہ سب کچھ برآمد ہوا، جو اس میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔
بعد ازاں سکاکال کو قاہرہ کی ایک عدالت نے 15 سال قید کی سزا بھی سنا دی تھی، مگر ان کی غیر حاضری میں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ سکاکال اب بھی اٹلی میں ہیں۔ لیکن اگر اطالوی حکام نے ان کے خلاف کسی قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا بھی، تو دونوں ممالک کے مابین مطلوب افراد کی ملک بدری کا کوئی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے سکاکال کو اٹلی سے واپس مصر نہیں بھیجا جا سکے گا۔
اشتہار
پانچ سو واقعات میں غیر قانونی اقدامات یا اسکینڈل
ڈی ڈبلیو اور اس کے پارٹنر میڈیا اداروں نے 'شیڈو ڈپلومیٹس انویسٹی گیشن‘ کے دوران کم از کم بھی 500 ایسے واقعات کا دستاویزی ریکارڈ جمع کیا، جن میں کوئی نہ کوئی اعزازی قونصل کسی نہ کسی اسکینڈل یا غیر قانونی کارروائی میں ملوث تھا۔
دنیا میں سفارت کاری کے سب سے بڑے نیٹ ورک کن ممالک کے ہیں
دنیا میں اقتصادی ترقی اور سیاسی اثر و رسوخ قائم رکھنے میں سفارت کاری اہم ترین جزو تصور کی جاتی ہے۔ دیکھیے سفارت کاری میں کون سے ممالک سرفہرست ہیں، پاکستان اور بھارت کے دنیا بھر میں کتنے سفارتی مشنز ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Harnik
1۔ چین
لوی انسٹی ٹیوٹ کے مرتب کردہ عالمی سفارت کاری انڈیکس کے مطابق چین اس ضمن میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔ دنیا بھر میں چینی سفارتی مشنز کی مجموعی تعداد 276 ہے۔ چین نے دنیا کے 169 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ مختلف ممالک میں چینی قونصل خانوں کی تعداد 98 ہے جب کہ مستقل مشنز کی تعداد آٹھ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
2۔ امریکا
امریکا دنیا بھر میں تعینات 273 سفارت کاروں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ امریکا کے دنیا کے 168 ممالک میں سفارت خانے موجود ہیں جب کہ قونصل خانوں کی تعداد 88 ہے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ اور دیگر اہم جگہوں پر تعینات مستقل امریکی سفارتی مشنز کی تعداد نو ہے۔
تصویر: AFP/B. Smialowski
3۔ فرانس
فرانس اس عالمی انڈیکس میں 267 سفارتی مشنز کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک فرانس کے 161 سفارت خانے، 89 قونص خانے، 15 مستقل سفارتی مشنز اور دو دیگر سفارتی مشنز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Valat
4۔ جاپان
جاپان نے دنیا کے 151 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں اور مختلف ممالک کے 65 شہروں میں اس کے قونصل خانے بھی موجود ہیں۔ جاپان کے مستقل سفارتی مشنز کی تعداد 10 ہے اور دیگر سفارتی نمائندوں کی تعداد 21 ہے۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں جاپان کے سفارتی مشنز کی تعداد 247 بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/I. Kalnins
5۔ روس
روس 242 سفارتی مشنز کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے 144 ممالک میں روسی سفارت خانے ہیں جب کہ قونصل خانوں کی تعداد 85 ہے۔
تصویر: picture-alliance/Kremlin Pool
6۔ ترکی
مجموعی طور پر 234 سفارتی مشنز کے ساتھ ترکی سفارت کاری کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ 140 ممالک میں ترکی کے سفارت خانے قائم ہیں اور قونصل خانوں کی تعداد 80 ہے۔ ترکی کے 12 مستقل سفارتی مشنز بھی سرگرم ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/K. Ozer
7۔ جرمنی
یورپ کی مضبوط ترین معیشت کے حامل ملک جرمنی نے دنیا کے 150 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ جرمن قونصل خانوں کی مجوعی تعداد 61 اور مستقل سفارتی مشنز کی تعداد 11 ہے۔ جرمنی کے سفارتی مشنز کی مجموعی تعداد 224 بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
8۔ برازیل
لاطینی امریکا کی ابھرتی معیشت برازیل کے بھی دنیا بھر میں 222 سفارتی مشنز ہیں جن میں 138 سفارت خانے، 70 قونصل خانے اور 12 مستقل سفارتی مشنز شامل ہیں۔
تصویر: AFP/S. Lima
9۔ سپین
سپین 215 سفارتی مشنز کے ساتھ اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے 115 ممالک میں ہسپانوی سفارت خانے ہیں اور مختلف ممالک کے شہروں میں قائم ہسپانوی قونصل خانوں کی تعداد 89 ہے۔
تصویر: Fotolia/elxeneize
10۔ اٹلی
اٹلی نے 124 ممالک میں اپنے سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ قونصل خانوں کی تعداد 77 ہے جب کہ آٹھ مستقل سفارتی مشنز بھی سرگرم ہیں۔ دنیا بھر میں اٹلی کے مجموعی سفارتی مشنز کی تعداد 209 ہے۔
تصویر: Imago
11۔ برطانیہ
برطانیہ کے دنیا بھر میں مجموعی سفارتی مشنز کی تعداد 205 ہے جن میں 149 سفارت خانے، 44 قونصل خانے، نو مستقل سفارتی مشنز اور تین دیگر نوعیت کے سفارتی مشنز شامل ہیں۔
تصویر: imago/ITAR-TASS/S. Konkov
12۔ بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت مجموعی طور پر 186 سفارتی مشنز کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں بارہویں اور ایشیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ بھارت نے 123 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں جب کہ دنیا بھر میں بھارتی قونصل خانوں کی تعداد 54 ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور آسیان کے لیے خصوصی سفارتی مشن سمیت بھارت کے دنیا میں 5 مستقل سفارتی مشنز بھی ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
28۔ پاکستان
پاکستان مجموعی طور پر 117 سفارتی مشنز کے ساتھ اس درجہ بندی میں 28ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان نے دنیا کے 85 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں جب کہ پاکستانی قونصل خانوں کی تعداد 30 ہے۔ علاوہ ازیں نیویارک اور جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے مستقل پاکستانی سفارتی مشنز بھی سرگرم ہیں۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
13 تصاویر1 | 13
ایک سوال یہ بھی ہے کہ اعزازی قونصل ہوتا کون ہے؟ ایسے اعزازی سفارت کار اپنے اپنے ممالک میں دوسرے ملکوں کی حکومتوں کے لیے کام کرتے ہیں، اکثر ایسے خطوں میں جہاں متعلقہ ملک کا سفارت خانہ یا کوئی قونصل خانہ نہیں ہوتے۔ ان کا کام ان ممالک کے مفادات کی ترویج ہوتا ہے، جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔
ایسی شخصیات محدود سطح پر قونصلر کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرتی ہیں، مگر اس کے لیے انہیں کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔ یہ بات تاہم اپنی جگہ درست ہے کہ اعزازی قونصل ہونے سے ایسے افراد کے لیے سفارت کاری اور سفارت کاروں کی ایک پوری نئی دنیا کھل جاتی ہے۔
پرکشش فوائد اور اعزازی مراعات
مخصوص حالات میں ایسے سفارت کاروں کو وہی مراعات ملتی ہیں، جو پیشہ ور سفارت کاروں کا حق ہوتی ہیں۔ قونصلر ریلیشنز کا احاطہ کرنے والے ویانا کنوینشن کے مطابق اعزازی سفارت کاروں کو ہر معاملے میں تو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا تاہم ان کے بطور قونصلر کیے گئے اقدامات کے سلسلے میں انہیں مکمل مامونیت حاصل رہتی ہے۔
ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اعزازی قونصل جب سفر کرتے ہیں اور اپنے سامان یا پورے کے پورے کنٹینر کو اگر سفارتی سامان ظاہر کر دیں، تو کسی بھی ملک کے کسٹمز حکام کے لیے اس کی تلاشی بہت ہی مشکل ہو جاتی ہے۔
بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی تصاویر
عراقی دارالحکومت بغداد میں مشتعل شیعہ مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا ہے۔ یہ افراد مرکزی دروازہ توڑ کر سفارت خانے میں داخل ہوئے اور استقبالیہ کے سامنے امریکی پرچم نذر آتش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
بتایا گیا ہے کہ اس سے قبل سفارتی عملے کو عمارت سے نکال لیا گیا تھا۔ بغداد کے محفوظ ترین علاقے میں جاری اس احتجاج میں ہزاروں افراد شریک ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
یہ مظاہرے ایرانی حمایت یافتہ شیعہ جنگجوؤں پر امریکی فضائی حملے کے خلاف کیے جا رہے ہیں۔ اتوار کو امریکی فضائیہ نے ایرانی حمایت یافتہ کتائب حزب اللہ ملیشیا کے ایک ٹھکانے کو نشانہ بنایا تھا، جس میں کم از کم پچیس جنگجو مارے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سفارت خانے کے حفاظتی دستوں کی جانب سے مظاہرین کو واپس دھکیلنے اور منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
مظاہرین امریکی سفارت خانے کے بالکل سامنے امریکا مردہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے سفارت خانے کی حدود میں داخل ہوئے۔ مظاہرین نے پانی کی بوتلیں بھی پھینکیں اور سفارت خانے کے بیرونی سکیورٹی کیمرے بھی توڑ ڈالے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
آج بغداد کے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے پر حملہ امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کی تدفین کے بعد کیا گیا۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
جنگجوؤں کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کی طرف مارچ جاری رکھا اور آخر کار سفارت خانے کا بیرونی دروازہ توڑنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی منصوبہ سازی کا الزام ایران پر عائد کیا ہے۔ ٹرمپ کے بقول ایران نے ایک امریکی ٹھیکیدار کو ہلاک اور کئی کو زخمی کیا، جس کے جواب میں فضائی کارروائی کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani
امریکی صدر کے مطابق آج کے اس واقعے پر سخت امریکی رد عمل سامنے آئے گا۔ ان کے مطابق اب ایران بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار بھی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر عراقی حکام سے سفارت خانے کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani
امریکی سفارت خانے کے باہر ایک دستی بم پھٹنے سے دو افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر نے عراقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو قابو میں لائے۔ ماہرین کے رائے میں طاقت کے استعمال سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ مزید تقویت پکڑ سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
9 تصاویر1 | 9
'شیڈو ڈپلومیٹس انویسٹی گیشن‘ کے نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اعزازی سفارتی عہدوں کے حامل افراد کو مراعات تو بہت سی حاصل ہوتی ہیں مگر ان کی مصروفیات کی نگرانی بہت ہی کم حد تک کی جاتی ہے یا ممکن ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اعزازی قونصل مقرر کرنے کی روایت کا مقصد تو تعمیری اور مثبت ہی تھا مگر اس اعزاز کا آسانی سے غلط استعمال بھی ممکن ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کئی واقعات میں دہشت گرد اپنے لیے اعزازی قونصل کی حیثیت کے خواہش مند بھی ہوئے اور انہیں یہ اعزاز مل بھی گئے۔ ایسے سفارتی عہدوں کی مانگ عالمی سطح پر اتنی بڑھ چکی ہے کہ کئی چھوٹے اور غریب ممالک تو چند ہزار ڈالر کے عوض یہ اعزاز فروخت کرنے کا بھی سوچنے لگتے ہیں۔
اس مفصل اور بہت طویل چھان بین کا حتمی نتیجہ یہ کہ اعزازی قونصل ہونا ایک اعزاز ہوتا ہے مگر اس کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث یہی اعزاز مستقبل میں ایک بڑی ذمے داری اور مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔
اس تحقیقی منصوبے کے لیے ڈی ڈبلیو کے شعبہ ترکی کے صحافتی ارکان نے 46 ممالک کے قریب 160 تحقیقی صحافیوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اس ریسرچ کا آغاز انویسٹی گیٹیو صحافیوں کے انٹرنیشنل کنسورشیم نے ایک غیر حکومتی امریکی تنظیم 'پرو پبلیکا‘ کے ساتھ مل کر کیا تھا۔
م م / ش ر (اُنکر پیلین، واردر سیردار)
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟