اعلیٰ امریکی عدالت نے بلیک واٹر محافظوں کی سزائیں ختم کر دیں
عابد حسین
5 اگست 2017
سن 2007 میں بغداد میں چودہ عام عراقی شہریوں کو ہلاک کرنے والے بلیک واٹر گارڈز کی سزائیں اپیل کورٹ نے ختم کر دی ہیں۔ عدالت کے مطابق یہ سزائیں امریکی دستوری حقوق کے منافی ہیں اور ان کا ازسرنو تعین کیا جانا ضروری ہے۔
اشتہار
پرائیویٹ سکیورٹی فراہم کرنے والی تحلیل شدہ امریکی کمپنی بلیک واٹر کے چار محافظوں نکولس سلیٹن، ایوان لبرٹی، پال سلو اور ڈسٹن ہیرڈ کو ماتحت عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دے دی گئی ہیں۔ ایک اعلیٰ امریکی عدالت نے سزاؤں کے خلاف دائر اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے ان گارڈز کے لیے نئی سزائیں سنانے کا حکم جاری کیا ہے۔
عدالت نے خاص طور پر نکولس سلیٹن کو کہا کہ وہ اپنے دفاع میں نئے ثبوت پیش کرے۔ نکولس سلیٹن کو عمرقید کی سزا سنائی گئی تھی۔ سلیٹن کے دیگر تین ساتھیوں کو لازمی تیس برس کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
اس مقدمے کا یہ پہلو انتہائی اہم ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران وکلائے استغاثہ اور صفائی کے دلائل میں قتل کے محرکات کی متضاد توجیہات پیش کی گئی تھیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق امریکی اپیل کورٹ کی جانب سے سزا ختم کرنے کی یہ سب سے بنیادی وجہ قرار دی جا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بلیک واٹر کے محافظوں کی جانب سے قتل کی بنیادی وجوہات بدستور مخفی ہیں اور اُن کے مناسب جوابات سامنے نہیں لائے جا سکیں ہیں۔
وفاقی استغاثہ کے مطابق ان گارڈز نے غیر مسلح سویلین پر حملہ کر کے گولیاں چلائی تھیں جبکہ وکلائے صفائی کا کہنا ہے کہ گولیاں اُس وقت چلائی گئی تھیں جب ایک بارود سے بھری کار اُن کی جانب تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی اور یہ سب ذاتی حفاظت میں کیا گیا۔
اپیل کورٹ کے مطابق اس مقدمے میں بلیک واٹر کے تین کنٹریکر پال سلو، ایوان لبرٹی اور ڈسٹن ہیرڈ کو دی گئی تیس برس کی سزا میں ماتحت عدالت نے ان افراد کے دستوری حقوق کی خلاف ورزی کی تھی اور یہ غیر ضروری طور پر ظالمانہ سزائیں تھیں۔ چوتھے گارڈ نکولس سلیٹن کو قتلِ عمد کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ جو سزائیں دی گئی تھیں، وہ بینک ڈکیتیوں یا حکومتی سلامتی کے منافی اقدامات میں دی جاتی ہیں۔ عدالت نے ایوان لبرٹی کودی جانے والی غیرقانونی قتلِ کی سزا کو بھی موقوف کر دیا ہے۔
ماتحت عدالت دوبارہ اس نئے فیصلے کی روشنی میں ان مجرموں کی سزاؤں کا تعین کرے گی۔ وکلائے صفائی نے عدالتی فیصلے پر اطمینان اور مسرت کا اظہار کیا ہے۔ اُن کے مطابق فیصلے سے اُن کے موکلین کو غیر دستوری سزاؤں سے نجات مِل گئی ہے اور اب دوسرے آپشن پر غور کیا جا سکتا ہے۔
اس مقدمے کی عدالتی کارروائی سن 2014 میں شروع ہوئی تھی اور محض چار ہفتوں میں دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ سنا دیا گیا تھا۔
عراق: موصل میں خوف سے فرار ہوتے ہوئے شہری
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مکمل قبضے کے لیے عراقی فورسز دن رات حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد متاثرہ علاقے چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Salem
موصل کو دہشت گرد تنظیم داعش سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس دوران موصل کے بچوں کی ایک بڑی تعداد دہشت زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔
تصویر: Reuters/S. Salem
داعش کے خلاف بغداد حکومت کا فوجی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، توں توں اس سے زمین کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی انسانوں کے لیے کئی برسوں تک مضر صحت رہے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
موصل پر قبضے کی مہم میں داعش نے تیل کے کنوئیں کو آگ لگانے کے علاوہ گندھک کی ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ آگ اور پانی کی آلودگی کے ساتھ فضا میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے اٹھنے والی زہریلی گرد اور خاک، ہتھیار اور جنگی آلات بھی موصل اور گردونواح کے لوگوں کی جانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
تصویر: Reuters/World Press Photo Foundation/The New York Times/S. Ponomarev
موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کے بعد عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈے کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
تصویر: Reuters
امدادی گروپوں کے اندازوں کے مطابق موصل کے مغربی حصے میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ شہری موجود ہیں اور ان میں سے بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Salem
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیر ملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘ امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد سرگرم لیڈر مار دیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شمداسنی کا جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آئی ایس آئی ایل جان بوجھ کر بعض مقامات پر مغوی عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بزدلانہ حکمت عملی استعمال کر رہی ہے تاکہ فوجی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔‘‘