جرمنی غیر ملکی طالب علموں کا پسندیدہ ترین ’نان انگلش‘ ملک
شمشیر حیدر بین نائٹ کے ساتھ
16 اگست 2019
قومی زبان کے طور پر انگریزی نہ بولنے والے ممالک کی فہرست میں بین الاقوامی طالب علموں کی پسندیدہ ترین منزل کی حیثیت سے فرانس کو پیچھے چھوڑ کر جرمنی اب پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ طلبہ اب جرمنی کا رخ کر رہے ہیں۔
اشتہار
جرمنی میں پڑھنے والے طالب علموں کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمن مرکز برائے جامعات و تحقیق کے مطابق سن 2017/18 کے موسم گرما کے سمسٹر میں 2 لاکھ 82 ہزار غیر ملکی طالب علموں کو جرمن یونیورسٹیوں میں داخلہ دیا گیا۔ بین الاقوامی طالب علموں میں سے زیادہ تر کا تعلق ان ممالک سے ہے۔
تصویر: imago/Westend61
1۔ چین
سن 2018 میں جرمن یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے غیر ملکی طالب علموں میں سے تیرہ فیصد سے زائد کا تعلق چین سے تھا۔ چینی طالب علموں کی تعداد 37 ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: picture-alliance
2۔ بھارت
دوسرے نمبر پر بھارتی طالب علم رہے۔ گزشتہ برس 17 ہزار سے زائد بھارتی شہری جرمن یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے۔
تصویر: Melissa Bach Yildirim/AU Foto
3۔ آسٹریا
جرمنی کے پڑوسی ملک آسٹریا سے تعلق رکھنے والے گیارہ ہزار سے زائد طالب علم بھی گزشتہ برس جرمنی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
4۔ روس
گزشتہ برس جرمن جامعات میں پڑھے والے روسی طالب علموں کی تعداد بھی 11800 تھی۔
تصویر: Privat
5۔ اٹلی
یورپی ملک اٹلی سے تعلق رکھنے والے قریب 9 ہزار طالب علم جرمنی میں زیر تعلیم تھے۔
تصویر: DW/F. Görner
6۔ شام
سن 2015 میں اور اس کے بعد بھی لاکھوں شامی مہاجرین جرمنی پہنچے تھے اور اسی وجہ سے جرمن یونیورسٹیوں میں شامی طالب علموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد شامی شہری مختلف جرمن جامعات میں زیر تعلیم تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Schmidt
7۔ ترکی
گزشتہ برس کے دوران سات ہزار چھ سو سے زائد ترک شہریوں کو بھی جرمن جامعات میں داخلہ ملا۔
تصویر: DW/Sabor Kohi
8۔ ایران
ایرانی طالب علموں کی بڑی تعداد بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی کا رخ کرتی ہے۔ گزشتہ برس جرمن جامعات میں زیر تعلیم ایرانیوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9۔ کیمرون
افریقی ملک کیمرون سے تعلق رکھنے والے سات ہزار تین سو طالب علم گزشتہ برس جرمنی میں زیر تعلیم تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch
پاکستانی طالب علم بیسویں نمبر پر
سن 2018 میں قریب پانچ ہزار پاکستانی طالب علم مختلف جرمن یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
تصویر: privat
10 تصاویر1 | 10
انگریزی زبان میں تعلیم کے باعث دنیا بھر میں غیر ملکی طالب علموں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے عام طور پر امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کا رخ کرتی ہے۔
انگریزی زبان نہ بولنے والے ممالک میں فرانس غیر ملکی طالب علموں کی سب سے من پسند منزل تھا لیکن اب فرانس کی جگہ جرمنی سرفہرست آ گیا ہے۔ یہ بات اعلیٰ تعلیم سے متعلق جرمن ادارے (DAAD) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتائی ہے۔
اس رپورٹ میں سن 2016 کے اعداد و شمار (تازہ ترین مکمل دستیاب ڈیٹا) کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق سن 2016 میں دو لاکھ باون ہزار سے زائد غیر ملکی طالب علموں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جرمنی کا رخ کیا۔ فرانسیسی جامعات میں اس عرصے کے دوران قریب دو لاکھ چھیالیس ہزار غیر ملکی طالب علم زیر تعلیم تھے۔
اعلیٰ تعلیم سے متعلق اس جرمن ادارے نے اپنے سروے میں بین الاقوامی طالب علموں سے ہائر ایجوکیشن کے لیے جرمن یونیورسٹیوں کے انتخاب کی وجوہات بھی پوچھی تھیں۔
سروے میں شامل 83 فیصد طالب علموں کا کہنا تھا کہ ان کے فیصلے کی وجہ جرمنی میں پروفیشنل امکانات کا زیادہ ہونا ہے جب کہ 74 فیصد طالب علموں کے مطابق انہوں نے بین الاقوامی طور پر مسلمہ ڈگری کے حصول کے لیے کسی نہ کسی جرمن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
مفت تعلیم بھی اہم وجہ
جرمنی کی زیادہ تر پبلک یونیورسٹیوں میں ٹیوشن فیس نہیں لی جاتی۔ DAAD کی اہلکار یولیا ہیلمان کے مطابق زیادہ تر غیر ملکی طالب علم اسی وجہ سے جرمنی کا رخ کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ہیلمان کا کہنا تھا، ’’اعلیٰ تعلیم کے لیے غیر ملکی طالب علموں کے پسندیدہ ممالک میں ٹیوشن فیس بھی بہت زیادہ لی جاتی ہے۔ جرمن جامعات کو دیگر ممالک کے ایسے تعلیمی اداروں پر ترجیح دینے میں کئی طالب علموں کے لیے جرمنی میں ٹیوشن فیس کا نہ ہونا بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔‘‘
جرمنی کی وزیر تعلیم آنیا کارلیکزک نے ان اعداد و شمار پر خوشی کا اظہار کیا اور ملکی جامعات کو غیر ملکی طالب علموں کے لیے مزید پرکشش بنانے کے لیے اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
یولیا ہیلمان کے مطابق بھی بہتری کی کافی گنجائش موجود ہے۔ جرمنی میں زیر تعلیم 45 فیصد غیر ملکی طالب علم اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے۔ اس حوالے سے ہیلمان کا کہنا تھا، ’’غیر ملکی طالب علموں کے لیے تعلیم مکمل نہ کر پانا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ زبان کے مسئلے کے علاوہ جرمنی میں تعلیم کا طریقہ کار اور مالی مسائل طالب علموں کے ڈراپ آؤٹ کی مرکزی وجوہات ہیں۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی کے دوران اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی کا رخ کرنے والے غیر ملکی طالب علموں کی تعداد دوگنا ہوئی ہے۔ دوسری طرف حصول تعلیم کے لیے دیگر ممالک کا رخ کرنے والے جرمن طالب علموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جرمن طالب علموں کی ایک تہائی تعداد ایسی ہے جو دیگر ممالک کی جامعات میں کم از کم ایک سمسٹر کے لیے ضرور پڑھنے جاتی ہے۔ جرمنی میں مقیم مہاجرین بھی زیر تعلیم
جرمن یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم غیر ملکیوں میں سے 42 ہزار طالب علم جرمنی میں بطور مہاجر مقیم ہیں۔ زیر تعلیم مہاجرین کا تعلق شام، افغانستان، ایران، عراق، نائجیریا، اریٹریا اور پاکستان سے ہے۔
بلیو کارڈ: پیشہ ور افراد کے لیے یورپ کا دروازہ
بلیو کارڈ جرمنی اور یورپ میں قیام کا وہ اجازت نامہ ہے، جس کے تحت یورپی یونین سے باہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر ملکیوں کو یورپی یونین کے رکن ممالک میں ملازمت اور رہائش کی اجازت دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/chromorange
غیر ملکیوں کا آسان انضمام
بلیو کارڈ اسکیم کو 2012ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ بلیو کارڈ لینے والے کے لیے یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں کام کرنے کے مواقع کھل جاتے ہیں۔ اس کے لیے یورپی یونین کے باہر کا کوئی بھی شخص درخواست دے سکتا ہے۔ کسی جرمن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طالب علم بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 18 ماہ تک جرمنی میں رہ کر کام کی تلاش کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پورے یورپی یونین میں کہیں بھی
بلیو كارڈ کے حامل فرد کو ڈنمارک، آئر لینڈ اور برطانیہ کو چھوڑ کر یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں کام کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس شخص نے یورپ سے باہر کسی ملک میں کالج کی تعلیم مکمل کی ہو اور اس کے پاس جرمنی کی کسی کمپنی کی طرف سے سالانہ کم از کم 48,400 یورو تنخواہ کی ملازمت کا كنٹریکٹ موجود ہو۔ ڈاکٹرز اور انجینئرز کے لیے سالانہ 37,725 یورو تنخواہ کا کنٹریکٹ بھی قابل قبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Rehder
خاص شعبوں میں زیادہ امکانات
جرمنی کے کئی علاقوں میں کچھ شعبوں کے ماہرین کی کافی کمی ہے جیسے کہ مكینیكل انجینئرز، ڈاکٹرز اور نرسز وغیرہ۔ اس کے علاوہ کئی شعبوں میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ یعنی تحقیق و ترقی کا کام کرنے والوں کی بھی کمی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2020ء تک جرمنی میں قریب دو لاکھ چالیس ہزار انجینئرز کی ضرورت ہوگی۔ ان علاقوں میں تربیت یافتہ لوگوں کو بلیوكارڈ ملنا زیادہ آسان ہے۔
تصویر: Sergey Nivens - Fotolia.com
بلیو کارڈ کے بارے میں تفصیلی معلومات
جرمن حکومت نے بلیو کارڈ کے بارے میں تفصیلی معلومات کی فراہمی کے لیے ایک ویب پورٹل بنا رکھا ہے http://www.make-it-in-germany.com ۔ یہاں آپ جرمنی سے متعلق تمام موضوعات پر معلومات مل سکتی ہیں۔
تصویر: make-it-in-germany.com
خاندان کی رہائش بھی ساتھ
صرف 2014ء میں ہی تقریباﹰ 12,000 لوگوں کو بلیو کارڈ دیا گیا۔ بلیو کارڈ ہولڈر اپنے کنبے کو بھی جرمنی لا سکتا ہے۔ اس کے لیے اُس کے اہلِ خانہ کی جرمن زبان سے واقفیت ہونے کی شرط بھی نہیں ہوتی۔ بلیو کارڈ ہولڈرز کے پارٹنر کو بھی کام کرنے کی اجازت مل سکتی ہے ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Frank Leonhardt
سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے بھی بلیو کارڈ کا مطالبہ
روزگار کی وفاقی جرمن ایجنسی نے اب مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے افراد کو بھی بلیو کارڈ کی سہولت دی جائے، جو اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے حامل ہوں اور مخصوص شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تشہیری مہم کی ضرورت
بعض جرمن ماہرین اس بات کے قائل ہیں کہ بلیو کارڈ کو دیگر ممالک میں متعارف کرانے کے لیے ایک جارحانہ تشہیری مہم کی بھی ضرورت ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی کی 1250 سے زائد کمپنیوں نے کھلے عام یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ غیر ملکی ہنر مند افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔