اعلیٰ مصری حکام کا برسوں بعد ليبيا کا دورہ، مقصد کيا ہے؟
28 دسمبر 2020
مصری سفارت کاروں اور انٹلیجنس حکام کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے شورش زدہ ملک لیبیا کا دورہ کیا ہے۔ مصری حکام کا يہ طرابلس کا چھ سال بعد پہلا دورہ ہے۔
اشتہار
لیبیا کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حکومت (جی این اے) کو ترکی کی جانب سے مسلسل حمایت اور خطے میں عدم استحکام پر مصر تشویش کا شکار ہے۔ مصری جنرل انٹلیجنس سروس کے نائب سربراہ ایمن بدیع کی قیادت میں مصری سفارت کاروں اور انٹلیجنس اہلکاروں کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے اتوار کے روز لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کا دورہ کیا اور اس شمالی افریقی ملک کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حکومت (جی این اے) کے وزیر داخلہ فتحی علی عبدالسلام باشاغآ اور ملکی انٹلیجنس کے سربراہ عماد طرابلوسی سمیت متعدد عہدیداروں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔
باشآغا نے گزشتہ ماہ قاہرہ کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ مصری عہدیداروں کے ساتھ ملاقات 'کافی سود مند اور تعمیری‘ رہی اور قاہرہ حکومت کے ساتھ تعلقات'انتہائی اہمیت‘ کے حامل ہیں۔
اپنے بیان میں باشآغا نے کہا، ”مصری سکیورٹی وفد کے ساتھ آج طرابلس میں سود مند اور تعمیری ملاقاتیں ہوئیں، جن میں ہم نے سکیورٹی اور انٹلیجنس کے شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے ایسے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا، جو دونوں ملکوں اور خطے کے مفاد ميں ہيں اور انہيں دہشت گردوں اور منظم جرائم کے خطرات سے محفو ظ رکھيں۔"
چھ برس بعد مصری حکام کا دورہ ليبيا
سن 2014 کے بعد سے کسی اعلیٰ سطحی مصری وفد کا یہ طرابلس کا یہ پہلا دورہ ہے۔ لیبیا ميں حکومت اور خلفیہ حفتر کی قیادت میں مشرقی لیبیا میں واقع لییبئن نیشنل آرمی (ایل این اے) کے مابین تصادم کی وجہ سے لیبیا میں جاری خانہ جنگی کا سلسلہ جاری ہے۔
ترکی اور قطر جی این اے کی حمایت کرنے والے اہم ممالک ہیں جب کہ باغی جنرل خلیفہ حفتر کی ایل این اے کو روس، متحدہ عرب امارات اور مصر کا تعاون حاصل ہے۔ لیبیا میں سن 2011 سے ہی حالات کشیدہ ہیں۔
وزارت داخلہ کے مطابق عہدیداروں نے 'باہمی سکیورٹی چیلنجز اور سکیورٹی تعاون میں اضافہ کرنے کے طریقہ کار‘ پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے لیبیا میں متحارب گروپوں کے درمیان اکتوبر میں اقو ام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کی حمایت کرنے کے طریقہ کار پر بھی غور و خوض کیا۔ جی این اے کی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد الجبلاوی نے ٹوئٹر پر بتایا کہ مصری وفد نے طرابلس میں مصری سفارت خانہ جلد از جلد کھولنے کے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
الجبلاوی نے مزید بتایا کہ فریقین نے قاہر ہ کے لیے لیبيائی پروازوں کو بحال کرنے کے حوالے سے اقدامات کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔
ج ا / ع س (اے پی، روئٹرز)
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔