1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتجرمنی

افراط زر اور مہنگائی کے باعث جرمن عوام کی پریشانی اور زیادہ

14 اکتوبر 2022

زیادہ تر جرمن باشندوں کو اس بات کا خوف ہے کہ ملک میں افراط زر اور مہنگائی اسی طرح بڑھتے رہے تو وہ اقتصادی طور پر ان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے اور شدید مالی مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔

Germany inflation
تصویر: Frank Hoermann/SVEN SIMON/picture alliance

ایک سال قبل کووڈ انیس کی وبا کے دوران جرمن شہری ذہنی طور پر سب سے زیادہ مصروف تھے اور ایسا اس لیے نہیں تھا کہ انہیں اپنے بیمار پڑ جانے کی فکر تھی۔ بڑی وجہ دراصل یہ سوچ تھی کہ اس وبا کا ان کے بٹوے پر کیا اثر پڑے گا۔ جرمنی میں ہر سال ایک ایسا مطالعاتی جائزہ لیا جاتا ہے کہ معلوم ہو سکے کہ جرمنوں عوام کو سب سے زیادہ خوف کس چیز سے لاحق ہے؟ اس سلسلے کی تازہ ترین سالانہ اسٹڈی رپورٹ کے مطابق مشرقی یورپ میں آٹھ ماہ سے جاری روسی یوکرینی جنگ اور مہنگائی نے اب عوام کی مالی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

جرمن قیدی، قرض کی چکی میں پستے ہوئے

جمعرات 13 اکتوبر کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''جرمنی گزشتہ تقریباً 50 سال کے دوران افراط زر کی بلند ترین شرح کا سامنا کر رہا ہے۔ اس میں سے تقریباً نصف اضافہ توانائی اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے ہوا۔‘‘ اس رپورٹ کے مطابق عوام کو پہلے کے مقابلے میں دھماکہ خیز مہنگائی کے باعث زیادہ خدشات  لاحق ہیں۔ ''درحقیقت 67 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے اخراجات کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں 17 پوائنٹس کے بہت بڑے اضافے کی نشاندہی کرتی ہے۔‘‘

جرمنی کو اس وقت گزشتہ تقریباً پچاس سال کے دوران افراط زر کی بلند ترین شرح کا سامنا ہےتصویر: Sven Hoppe/dpa/picture alliance

’آسمان کو چھوتے‘ مالی خدشات

انشورنس کمپنی R+V Versicherung کی طرف سے ہر سال کرائی جانے والی اس اسٹڈی میں ملک بھر سے تقریباً 2,400  افراد سے رائے لی جاتی ہے کہ ان کے ذہنوں پر سب سے زیادہ بوجھ کس چیز کا ہے۔ اس مطالعے کے منتظمین نے گزشتہ سالوں کے دوران نوٹ کیا تھا، ''جرمن فطری طور پر پریشان نہیں‘‘ اور وہ صرف اپنے ارد گرد کے بڑے چیلنجوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن اس سال کا مطالعاتی جائزہ ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔

ہر پانچویں جرمن کی سالانہ آمدنی سولہ ہزار تین سو یورو سے کم

اس اسٹڈی کی سربراہ گریشا بروور رابینووچ کے مطابق، ''رواں برس عمومی اضطراب کے انڈکس میں چھ فیصد کا اضافہ ہوا اور بیالیس فیصد کے ساتھ یہ گزشتہ چار برسوں کی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔‘‘ انہوں نے کہا، ''لوگ جب اپنے بینک اکاؤنٹ اور ان میں موجود رقوم دیکھتے ہیں تو ان کے مالی خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر جرمن باشندے ایک سال پہلے کی نسبت اب نمایاں طور پر زیادہ پریشان ہیں۔‘‘

رہائش کا بحران

درحقیقت ایک ایسے ملک میں جہاں قرض لینا ایک طویل عرصے سے ممنوعہ روایت رہا ہے، اس نئے مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ سن 2022 میں مالی خدشات نئی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں اور مختلف طرح کی اقتصادی پریشانیاں پانچ سب سے بڑے مسائل میں شامل ہیں۔

جرمنی میں یوکرینی جنگ کے آغاز کے بعد سے توانائی کی قیمتوں میں بےتحاشا اضافہ ہو چکا ہےتصویر: Micha Korb/pressefoto korb/picture alliance

اس مطالعے کے شریک مصنف اور ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر مانفریڈ شمٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں 'مہنگائی کو ایک معاشرتی بیماری کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ مالی وسائل سے جڑی پریشانیوں نے تحفط ماحول اور وبائی امراض سے جڑے خدشات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

ان پریشانیوں میں سستی رہائش تلاش کرنے کے قابل ہونے کی پریشانی بھی شامل ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو اس مطالعے کی 36 سالہ تاریخ میں پہلے کبھی نظر نہیں آیا تھا اور اب یہ مسئلہ عام جرمنوں کے ذہنوں میں دوسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ اس مطالعے کے  نصف سے زیادہ جواب دہندگان کا کہنا ہےکہ وہ بھی رہائش کے مسئلے سے متاثر ہوئے ہیں۔

جرمنی میں اگلے سال سے کساد بازاری، اقتصادی اداروں کی پیش گوئی

دوسرے ممالک کئی دہائیوں سے رہائش کے لیے بڑھتے ہوئے کرایوں اور گھروں کی تعمیر و فروخت کے مسئلے سے نبرد آزما رہے ہیں تاہم جرمن شہری ابھی تک ان مسائل سے نسبتاً کم ہی متاثر ہوئے تھے۔ اگرچہ چانسلر اولاف شولس کی حکومت نے ہر سال چار لاکھ نئے سستے گھر بنانے کا منصوبہ بھی پیش کیا ہے تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مہنگائی اور گھروں کی تعمیر کے لیے ماہر افرادی قوت کی کمی دونوں اس ہدف کے حصول کو مشکل بنا دیں گے۔

جرمنی کے وفاقی دفتر شماریات کے مطابق دستیاب نئے اپارٹمنٹس کی تعداد 1990 کی دہائی کے مقابلے میں کم ہوئی ہے اور 2010 کی دہائی کے اوائل میں تیزی کے ایک مختصر سے عرصے کے بعد سے یہ شعبہ جمود کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیک وقت گھروں کے کرایوں میں زبردست اضافہ تو ہوا ہے مگر کارکنوں کی اجرتوں میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ یہ صورت حال خاص طور پر بڑے شہروں میں عام ہے، جہاں کرائے عمومی اوسط سے تقریباً 21 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔

جرمنی: مہنگائی اور توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کا 65 ارب یورو کے ریلیف پیکج پر اتفاق

مانفریڈ شمٹ نے وضاحت کی کہ املاک کی دیکھ بھال کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے پیش نظر بہت سے چھوٹے خاندانوں کے لیے نئی اور مناسب رہائشی سہولیات کی اشد ضرورت ہے۔

جنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پریشان عوام

یوکرین پر روسی  فوجی حملے نے مہنگائی میں اضافے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہنوں میں جنگ کے امکانات کو بھی نمایاں کر دیا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں دفاعی اخراجات کافی عرصے سے غیر مقبول ہیں، اب جنگ کا حصہ بن جانے کا خیال بھی جرمنوں کے لیے مزید ناگوار ہو گیا ہے۔

اس ضمن میں دنیا بھر میں آمریت کا عروج ایک ایسا موضوع تھا، جو اس سے قبل  کبھی بھی اس مطالعے میں سامنے نہیں آیا تھا۔ تاہم اب یہ جرمن عوام کے ذہنوں میں پائے جانے والے دس بڑے خدشات میں شامل ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ خدشہ کہ جرمنی کو بھی روسی یوکرینی جنگ میں گھسیٹا جا سکتا ہے، چھبیس فیصد کے اضافے کے ساتھ اب جرمن باشندوں کے لیے گیارہویں سب سے بڑی وجہ تشویش بن چکا ہے۔

روسی یوکرینی جنگ: جرمن گھرانو‌ں پر اربوں یورو کا اضافی بوجھ

ایک اور بڑی پریشانی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق تھی۔ اگرچہ جرمنی نے جولائی سن 2021 میں ملک کے مغرب میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی طرح اس سال کسی بھی قدرتی آفت کا سامنا نہیں کیا، تاہم موسم گرما کی خشک سالی اور شدید گرمی کی متعدد لہروں کے ساتھ ساتھ دنیا میں دیگر مقامات پر آنے والی آفات اور برلن حکومت کی بے عملی کا احساس بھی عوام میں پریشانی کا سبب بنا۔ چھیالیس فیصد رائے دہندگان نے بتایا کہ وہ 2022ء میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں فکر مند رہے۔ 2021ء میں یہ تناسب چالیس فیصد تھا۔

اس بارے میں اس اسٹڈی کی خاتون سربراہ کا کہنا تھا، ''ماحولیاتی تباہی سے متعلق پریشانیاں اب صرف کوئی احساس نہیں بلکہ ٹھوس مسائل کا نتیجہ ہیں۔‘‘

ش ر / م م (الزبتھ شوماخر)

جرمنی میں بڑھتی مہنگائی غریب عوام کے لیے تشویش ناک

02:37

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں