افراط زر اور مہنگائی کے باعث جرمن عوام کی پریشانی اور زیادہ
14 اکتوبر 2022
زیادہ تر جرمن باشندوں کو اس بات کا خوف ہے کہ ملک میں افراط زر اور مہنگائی اسی طرح بڑھتے رہے تو وہ اقتصادی طور پر ان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے اور شدید مالی مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔
اشتہار
ایک سال قبل کووڈ انیس کی وبا کے دوران جرمن شہری ذہنی طور پر سب سے زیادہ مصروف تھے اور ایسا اس لیے نہیں تھا کہ انہیں اپنے بیمار پڑ جانے کی فکر تھی۔ بڑی وجہ دراصل یہ سوچ تھی کہ اس وبا کا ان کے بٹوے پر کیا اثر پڑے گا۔ جرمنی میں ہر سال ایک ایسا مطالعاتی جائزہ لیا جاتا ہے کہ معلوم ہو سکے کہ جرمنوں عوام کو سب سے زیادہ خوف کس چیز سے لاحق ہے؟ اس سلسلے کی تازہ ترین سالانہ اسٹڈی رپورٹ کے مطابق مشرقی یورپ میں آٹھ ماہ سے جاری روسی یوکرینی جنگ اور مہنگائی نے اب عوام کی مالی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
جمعرات 13 اکتوبر کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''جرمنی گزشتہ تقریباً 50 سال کے دوران افراط زر کی بلند ترین شرح کا سامنا کر رہا ہے۔ اس میں سے تقریباً نصف اضافہ توانائی اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے ہوا۔‘‘ اس رپورٹ کے مطابق عوام کو پہلے کے مقابلے میں دھماکہ خیز مہنگائی کے باعث زیادہ خدشات لاحق ہیں۔ ''درحقیقت 67 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے اخراجات کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں 17 پوائنٹس کے بہت بڑے اضافے کی نشاندہی کرتی ہے۔‘‘
’آسمان کو چھوتے‘ مالی خدشات
انشورنس کمپنی R+V Versicherung کی طرف سے ہر سال کرائی جانے والی اس اسٹڈی میں ملک بھر سے تقریباً 2,400 افراد سے رائے لی جاتی ہے کہ ان کے ذہنوں پر سب سے زیادہ بوجھ کس چیز کا ہے۔ اس مطالعے کے منتظمین نے گزشتہ سالوں کے دوران نوٹ کیا تھا، ''جرمن فطری طور پر پریشان نہیں‘‘ اور وہ صرف اپنے ارد گرد کے بڑے چیلنجوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن اس سال کا مطالعاتی جائزہ ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔
اس اسٹڈی کی سربراہ گریشا بروور رابینووچ کے مطابق، ''رواں برس عمومی اضطراب کے انڈکس میں چھ فیصد کا اضافہ ہوا اور بیالیس فیصد کے ساتھ یہ گزشتہ چار برسوں کی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔‘‘ انہوں نے کہا، ''لوگ جب اپنے بینک اکاؤنٹ اور ان میں موجود رقوم دیکھتے ہیں تو ان کے مالی خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر جرمن باشندے ایک سال پہلے کی نسبت اب نمایاں طور پر زیادہ پریشان ہیں۔‘‘
اشتہار
رہائش کا بحران
درحقیقت ایک ایسے ملک میں جہاں قرض لینا ایک طویل عرصے سے ممنوعہ روایت رہا ہے، اس نئے مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ سن 2022 میں مالی خدشات نئی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں اور مختلف طرح کی اقتصادی پریشانیاں پانچ سب سے بڑے مسائل میں شامل ہیں۔
اس مطالعے کے شریک مصنف اور ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر مانفریڈ شمٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں 'مہنگائی کو ایک معاشرتی بیماری کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ مالی وسائل سے جڑی پریشانیوں نے تحفط ماحول اور وبائی امراض سے جڑے خدشات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ان پریشانیوں میں سستی رہائش تلاش کرنے کے قابل ہونے کی پریشانی بھی شامل ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو اس مطالعے کی 36 سالہ تاریخ میں پہلے کبھی نظر نہیں آیا تھا اور اب یہ مسئلہ عام جرمنوں کے ذہنوں میں دوسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ اس مطالعے کے نصف سے زیادہ جواب دہندگان کا کہنا ہےکہ وہ بھی رہائش کے مسئلے سے متاثر ہوئے ہیں۔
دوسرے ممالک کئی دہائیوں سے رہائش کے لیے بڑھتے ہوئے کرایوں اور گھروں کی تعمیر و فروخت کے مسئلے سے نبرد آزما رہے ہیں تاہم جرمن شہری ابھی تک ان مسائل سے نسبتاً کم ہی متاثر ہوئے تھے۔ اگرچہ چانسلر اولاف شولس کی حکومت نے ہر سال چار لاکھ نئے سستے گھر بنانے کا منصوبہ بھی پیش کیا ہے تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مہنگائی اور گھروں کی تعمیر کے لیے ماہر افرادی قوت کی کمی دونوں اس ہدف کے حصول کو مشکل بنا دیں گے۔
ماحولیاتی بحران، پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے
بڑھتے درجہ حرارت اور شدید گرمی نے دنیا کے کئی ممالک کو شدید متاثر کیا ہے۔ چین سے امریکہ اور ایتھوپیا سے برطانیہ تک سبھی ممالک کو خشک سالی کا سامنا ہے۔ صورت حال تصاویر میں۔
تصویر: CFOTO/picture alliance
قرن افریقہ میں قحط کے خدشات
ایتھوپیا، کینیا اور صومالیہ پچھلے چالیس برسوں کی بدترین خشک سالی کا شکار ہیں۔ یہاں مسلسل کئی موسموں سے بارش نہیں ہوئی۔ خشک سالی کی وجہ سے اس پورے خطے میں خوراک کی قلط پیدا ہو گئی ہے اور یہاں بسنے والے 22 ملین افراد کے بھوک کے شکار ہو جانے کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔ اب تک خشک سالی کی وجہ سے ایک ملین افراد اپنے گھربار چھوڑ چکے ہیں۔
تصویر: Eduardo Soteras/AFP/Getty Images
یانگتسی کا خشک دریا
دنیا کا تیسرا سب سے بڑا دریائے یانگتسی چین میں ریکارڈ ساز خشک سالی سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پچھلے برس پانی کی کم سطح کی وجہ سے اس دریا سے جڑے ہائیڈرو پاور ڈیموں سے چالیس فیصد کم بجلی بنی، جب کہ یہ دریا شپنگ روٹ کے لیے بھی موزوں نہیں رہا ہے۔ اس صورتحال میں توانائی کی قلت کے پیش نظر بجلی کی بچت کے لیے تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔
تصویر: Chinatopix/AP/picture alliance
عراق سے بارش غائب
عراق ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور یہاں خشک سالی کی وجہ سے صحرائی پھیلاؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ پچھلے تین برس سے عراق میں بارش نہیں ہوئی ہے۔ عراق کا جنوبی حصہ جسے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے حیاتیاتی تنوع والے علاقوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے، اب مکمل طور پر خشک ہو چکا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں عراق میں مجوعی زرعی پیداوار میں سترہ فیصد کمی آئی ہے۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP
امریکہ میں پانی سے جڑی پابندیاں
امریکہ کا دریائے کولوراڈو پچھلی دو دہائیوں سے خشک سالی کا شکار ہے اور اس صورتحال کو پچھلے ایک ہزار سے زائد برسوں کی بدترین صورت حال قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ دریا امریکہ کے جنوب مغرب سے میکسیکو کی جانب بڑھتا ہے اور اپنے آس پاس لاکھوں افراد کی زرعی سرگرمیوں کا ضامن ہے۔ تاہم مسلسل کم بارشوں کے باعث اس دریا کے پانی کے استعمال سے متعلق پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
تصویر: John Locher/AP Photo/picture alliance
نصف یورپ خشک سالی کا شکار
یورپ میں حالیہ کچھ برسوں میں گرمی کی لہروں، کم بارش اور جنگلاتی آگ کے واقعات مسلسل دیکھے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ حالت گذشتہ پانچ سو برسوں کی بدترین صورتحال ہے۔ یورپ کے کئی اہم دریا بہ شمول دریائے رائن، پو اور لوئرے میں پانی کی سطح انتہائی کم ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے توانائی کی پیدوار کے علاوہ کارگو بحری جہازوں کی نقل و حرکت بھی متاثر ہوئی ہے۔ اسی تناظر میں یورپ میں زرعی شعبہ بھی متاثر ہوا ہے۔
تصویر: Ronan Houssin/NurPhoto/picture alliance
برطانیہ میں پائپ لگا کر پانی استعمال کرنے پر پابندی
انگلینڈ کے متعدد علاقوں کو رواں برس اگست میں ’خشک سالی کے شکار‘ علاقوں کو درجہ دے دیا گیا ہے۔ جولائی کے مہینے کو انگلینڈ میں 1935کے بعد سب سے خشک جولائی قرار دیا گیا ہے۔ اس دوران ملک میں دریا غیرمعمولی طور پر کم ترین سطح پر دیکھے گیے۔ اسی صورتحال میں حکومت نے ہوزپائپ استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔
تصویر: Vuk Valcic/ZUMA Wire/IMAGO
اسپین بدترین خشک سالی کا شکار
یورپ میں شدید گرمی اور خشک سالی کا سب سے زیادہ شکار اسپین ہوا ہے۔اس دوران اسپین میں کئی مقامات پر جنگلاتی آگ نے مجموعی طور پر ڈھائی لاکھ ہیکٹر کے رقبے پر جنگلات کو خاکستر کر دیا ہے۔ ایک ڈیم میں پانی کی سطح تاریخ کی سب سے کم تر مقام پر پہنچ گئی ہے۔
تصویر: Manu Fernandez/AP Photo/picture alliance
ایک خشک دنیا
ٹوکیو سے کیپ ٹاؤن تک کئی ممالک اور شہر شدید گرمی اور حدت سے نمٹنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال میں جدید ٹیکنالوجی ہی نہیں سادہ حل بھی فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں۔ سنیگال میں کسان دائروی شکل میں پودے اگا رہے ہیں، تاکہ کہ وہ مرکز کی جانب نمو پائیں اور یوں پانی کا ضیاع نہ ہو۔ چلی اور مراکش میں ہوا سے آبی بخارات نچوڑنے کے لیے جال لگائے جا رہے ہیں۔
تصویر: ZOHRA BENSEMRA/REUTERS
8 تصاویر1 | 8
جرمنی کے وفاقی دفتر شماریات کے مطابق دستیاب نئے اپارٹمنٹس کی تعداد 1990 کی دہائی کے مقابلے میں کم ہوئی ہے اور 2010 کی دہائی کے اوائل میں تیزی کے ایک مختصر سے عرصے کے بعد سے یہ شعبہ جمود کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیک وقت گھروں کے کرایوں میں زبردست اضافہ تو ہوا ہے مگر کارکنوں کی اجرتوں میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ یہ صورت حال خاص طور پر بڑے شہروں میں عام ہے، جہاں کرائے عمومی اوسط سے تقریباً 21 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔
مانفریڈ شمٹ نے وضاحت کی کہ املاک کی دیکھ بھال کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے پیش نظر بہت سے چھوٹے خاندانوں کے لیے نئی اور مناسب رہائشی سہولیات کی اشد ضرورت ہے۔
جنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پریشان عوام
یوکرین پر روسی فوجی حملے نے مہنگائی میں اضافے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہنوں میں جنگ کے امکانات کو بھی نمایاں کر دیا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں دفاعی اخراجات کافی عرصے سے غیر مقبول ہیں، اب جنگ کا حصہ بن جانے کا خیال بھی جرمنوں کے لیے مزید ناگوار ہو گیا ہے۔
ہر پانچ ميں سے چار قدرتی آفات کی وجہ موسمياتی تبديلياں
ريڈ کراس کی ايک تازہ رپورٹ ميں اقوام عالم پر زور ديا گيا ہے کہ تحفط ماحول کو سنجيدہ ليا جائے۔ موسمياتی تبديليوں کی وجہ سے قدرتی آفات کی تعداد اور شدت ميں مسلسل اضافہ نوٹ کيا جا رہا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
موسمياتی تبديلياں ہر پانچ ميں سے چار قدرتی آفات کی وجہ
موسمياتی تبديلياں گزشتہ دہائی ميں ہر پانچ ميں سے چار قدرتی آفات کی وجہ بنيں۔ يہ انکشاف ريڈ کراس کی ورلڈ ڈيزاسٹر رپورٹ ميں کيا گيا ہے، جو جنيوا سے منگل سترہ نومبر کو جاری کی گئی۔
تصویر: Yazin Akgul//AFP/Getty Images
دس سال ميں چار لاکھ دس ہزار افراد ہلاک
سن 2010 سے لے کر اب تک سيلابوں، طوفانوں اور شديد گرمی کی لہروں کی وجہ سے چار لاکھ دس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ ايسی قدرتی آفات ميں لاکھوں افراد بے گھر بھی ہوئے بالخصوص دور دزار کے اور ديہی علاقوں ميں جن کا اکثر اعداد و شمار ميں بھی تذکرہ نہيں ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
قدرتی آفات ميں ہر دہائی پينتيس فيصد اضافہ
سالانہ ورلڈ ڈيزاسٹر رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ سن 1990 کی دہائی کے بعد سے موسمياتی تبديليوں کی وجہ سے نمودار ہونے والی قدرتی آفات کی آمد ميں ہر دہائی پينتيس فيصد کا اضافہ ريکارڈ کيا گيا۔ اس وقت دنيا ميں آنے والی تمام قدرتی آفات کا تراسی فيصد موسمياتی تبديليوں کی وجہ سے آتا ہے۔
تصویر: Ismail Gokmen/AP Photo/picture-alliance
سترہ لاکھ افراد شديد متاثر
صرف گزشتہ ايک دہائی کے دوران آنے والی قدرتی آفات کی وجہ سے سترہ لاکھ افراد شديد متاثر ہوئے۔ کچھ کے اہل خانہ ہلاک ہوئے، کچھ کا مال مويشی گيا اور کئی کی زمينيں تباہ ہو گئيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
فنڈنگ کی کمی کا مسئلہ
سن 2015 ميں طے پانے والے پيرس معاہدے کی شرائط کے مطابق امير ملکوں نے تحفظ ماحول کی مد ميں غريب ملکوں کو سالانہ ايک سو بلين ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا فيصلہ کيا تھا۔ تاہم فراہم کردہ فنڈز مطلوبہ رقوم سے کم رہيں۔ مثال کے طور پر سن 2018 ميں 79.8 بلين فراہم کيے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
کورونا کی طرح سنجيدہ مسئلہ
ريڈ کراس نے اقوام عالم پر زور ديا ہے کہ موسمياتی تبديليوں سے اسی طرح نمٹا جائے، جيسے کورونا سے نمٹا جا رہا ہے کيونکہ يہ معاملہ بھی اتنا ہی سنجيدہ ہے۔
تصویر: Mortuza Rashed
6 تصاویر1 | 6
اس ضمن میں دنیا بھر میں آمریت کا عروج ایک ایسا موضوع تھا، جو اس سے قبل کبھی بھی اس مطالعے میں سامنے نہیں آیا تھا۔ تاہم اب یہ جرمن عوام کے ذہنوں میں پائے جانے والے دس بڑے خدشات میں شامل ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ خدشہ کہ جرمنی کو بھی روسی یوکرینی جنگ میں گھسیٹا جا سکتا ہے، چھبیس فیصد کے اضافے کے ساتھ اب جرمن باشندوں کے لیے گیارہویں سب سے بڑی وجہ تشویش بن چکا ہے۔
ایک اور بڑی پریشانی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق تھی۔ اگرچہ جرمنی نے جولائی سن 2021 میں ملک کے مغرب میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی طرح اس سال کسی بھی قدرتی آفت کا سامنا نہیں کیا، تاہم موسم گرما کی خشک سالی اور شدید گرمی کی متعدد لہروں کے ساتھ ساتھ دنیا میں دیگر مقامات پر آنے والی آفات اور برلن حکومت کی بے عملی کا احساس بھی عوام میں پریشانی کا سبب بنا۔ چھیالیس فیصد رائے دہندگان نے بتایا کہ وہ 2022ء میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں فکر مند رہے۔ 2021ء میں یہ تناسب چالیس فیصد تھا۔
اس بارے میں اس اسٹڈی کی خاتون سربراہ کا کہنا تھا، ''ماحولیاتی تباہی سے متعلق پریشانیاں اب صرف کوئی احساس نہیں بلکہ ٹھوس مسائل کا نتیجہ ہیں۔‘‘
ش ر / م م (الزبتھ شوماخر)
جرمنی میں بڑھتی مہنگائی غریب عوام کے لیے تشویش ناک