1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افریقہ: اسلامی انتہا پسندی کے خلاف یورپی مشن شروع

1 اگست 2012

یورپی یونین نے سلامتی کے شعبے میں مشاورت فراہم کرنے والے 50 ماہرین افریقی ملک نائیجر روانہ کیے ہیں، جو آج بدھ یکم اگست سے مغربی افریقہ میں مقامی حکام کو مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف جنگ میں مدد فراہم کرنا شروع کریں گے۔

نائیجر کے دارالحکومت نیامے میں تعینات ان ماہرین کی قیادت ہسپانوی پولیس کے گارڈیا سول نامی یونٹ کے کرنل فرانسسکو ایسپینوزا کر رہے ہیں۔ یورپی یونین کے آج سے شروع ہونے والے اس مشن کو EUCAP (یورپین یونین کیپیسٹی بلڈنگ مشن) کا نام دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس مشن میں شامل ماہرین سادہ کپڑوں میں نیامے پہنچے ہیں تاہم اُن کے سامان میں اُن کی وردیاں بھی ہیں اور وہ موقع محل کے مطابق اپنی یونیفارمز پہننے یا نہ پہننے کا فیصلہ کریں گے۔

یورپی یونین کے ایک ترجمان مائیکل مَین نے مشن کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:’’یہ ایک سویلین مشن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مختلف ممالک میں سلامتی کی صورتحال میں بہتری کے لیے فوجی ماہرین کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ تاہم اس مشن کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم فوجی دستوں کے ہاتھوں میں بندوقیں دے کر اُنہیں لوگوں سے لڑنے کے لیے بھیج رہے ہیں۔‘‘

مالی کے شمال میں مسلمان انتہا پسند فرانس کے رقبے کے برابر علاقے پر قابض ہیںتصویر: Reuters

حقیقت یہ ہے کہ براعظم افریقہ کے ساحل کہلانے والے علاقے میں مسلمان دہشت گردوں پر قابو پانے کے لیے پوری کی پوری فوجیں میدان میں اتری ہوئی ہیں، وہاں لڑائیاں جاری ہیں اور لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔ مالی کے شمال میں مسلمان انتہا پسندوں نے، جو القاعدہ کی علاقائی شاخ AQMI (القاعدہ اِن اسلامی مغرب) سے گہرے ربط میں ہیں، فرانس کے رقبے کے برابر علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ یہ خدائی فوجدار مالی ہی نہیں بلکہ افریقہ کے کئی دیگر مغربی اور شمالی حصوں میں بھی سرگرم ہیں۔ یہ انتہا پسند الجزائر میں بم دھماکے کر رہے ہیں، موریطانیہ میں فوجی چوکیوں پر فائرنگ کر رہے ہیں اور اپنے جہاد کو اب نائیجر میں بھی لانا چاہتے ہیں، جہاں کی حکومت نے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین سے مدد کی درخواست کی تھی۔

اپنے آج سے شروع ہونے والے اس دو سالہ افریقہ مشن کے لیے پہلے سال کے دوران یورپی یونین نے 8.7 ملین یورو کی رقم مختص کی ہے۔ اس مشن کا ہیڈ کوارٹر نیامے میں ہو گا لیکن اس کے رابطہ دفاتر باماکو اور نواکشوط میں بھی ہوں گے۔ ساحل کہلانے والے افریقی خطّے میں مجموعی طور پر 23 ملین انسان بستے ہیں۔ برسلز کی فری یونیورسٹی کی پروفیسر اور ساحل کے امور کی ماہر امیلیا ہاڈفیلڈ بتاتی ہیں:’’وہاں ایسی حکومتیں اور عوام ہیں، جنہیں کوئی امداد، کوئی تحفظ نہیں مل رہا ہے اور جو مختلف طرح کے خطرات کے مقابلے پر بے حد کمزور ہیں، خواہ یہ خطرہ مقامی القاعدہ کی شکل میں ہو، اسلحے کی غیر قانونی تجارت یا پھر سرحدوں سے بالا تر بد عنوانی کی شکل میں۔‘‘

جرمنی اور یورپ کے کچھ دیگر حلقوں کے خیال میں یورپی یونین کو فوجی مشیروں کی بجائے افریقی ساحل کے علاقے کے لیے زیادہ سماجی امداد مختص کرنی چاہیے۔

P.Hille/aa/km

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں