1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افریقہ میں قذافی کے خلاف امریکی سفارتی مہم

10 اگست 2011

امریکہ نے کئی افریقی ملکوں میں لیبیا کے رہنما قذافی کے خلاف ایک سفارتی مہم شروع کر دی ہے اور اس کے سفارتکار کئی افریقی ممالک کے رہنماؤں کو قائل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ وہ قذافی پر اقتدار چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔

لیبیا کے رہنما معمر قذافی افریقی یونین کے رہنماؤں کے ساتھ، فائل تصویرتصویر: picture-alliance/dpa

مگر افریقہ کے کئی ممالک ماضی میں قذافی کی پالیسیوں سے مالی فوائد حاصل کرتے رہے ہیں اور وہ ان پر اقتدار چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ اس کی بجائے انہوں نے لیبیا میں نیٹو کے فوجی حملوں پر نکتہ چینی کی ہے۔

فروری میں معمر قذافی کی جانب سے حزب اختلاف کے مظاہرین کے خلاف خونریز کارروائیوں کے بعد طرابلس چھوڑ جانے والے امریکی سفیر جین کریٹز پیر کو افریقی یونین کے ہیڈکوارٹر ادیس ابابا پہنچے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان مارک ٹونر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے دورہء افریقہ کا مقصد افریقی یونین کی رکن ریاستوں کے رہنماؤں سے ملاقاتوں میں لیبیا کے بحران پر تبادلہ خیال کرنا اور قذافی کے اقتدار چھوڑ دینے کی ضرورت پر زور دینا ہے۔

لیبیا کے باغیوں نے اگرچہ کچھ پیشرفت کی ہے مگر وہ قذافی کی منظم اور بہتر تربیت یافتہ فوج کا مقابلہ کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیںتصویر: Gaia Anderson

جین کریٹز نے ایتھوپیا کے وزیر اعظم میلس زیناوی سے ملاقات کی اور وہ افریقی یونین کے سربراہ ژاں پنگ سے بھی ملاقات کریں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے لیبیا کی حزب اختلاف کی قومی عبوری کونسل کے رہنما محمود جبریل سے بھی ملاقات کی، جو ایتھوپیا کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے جون میں افریقی یونین کے ہیڈکوارٹر کے دورےکے موقع پر تمام افریقی ملکوں پر زور دیا تھا کہ وہ قذافی سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مقرر کردہ تمام سفارتکاروں کو بھی ملک بدر کر دیں اور لیبیا کی حزب اختلاف کی مدد کریں۔

ادھر لیبیا کا بحران جاری ہے اور کسی فضائی حملے میں معمر قذافی کی ہلاکت یا اندرونی انقلاب کے بغیر ان کے اقتدار چھوڑنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ حزب اختلاف کی فورسز نے حالیہ ہفتوں میں کچھ پیشرفت کی ہے مگر وہ قذافی کی منظم اور بہتر تربیت یافتہ فوج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔

لیبیا کے سرکاری ٹیلی وژن پر خمیس قذافی کو طرابلس میں ہونے والے ایک حملے کے زخمیوں سے ملاقات کرتے دکھایا گیا ہےتصویر: picture alliance / abaca

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ قذافی کے حامی یہ سوچ رہے ہیں کہ تنازعے کے مزید طول پکڑ جانے کی صورت میں باغیوں کے دھڑے میں اندرونی اختلافات پیدا ہو جائیں گے اور مغربی طاقتیں کچھ عرصے کے بعد اپنی کوششیں ترک کر دیں گی، لہٰذا اگر وہ مزید چھ مہینے یا ایک سال اسی طرح گزار لیں تو یہ قذافی اور ان کے حامیوں کی کامیابی ہوگی۔

کل منگل کے روز اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ لیبیا کی حکومت نے اس عالمی ادارے سے کہا ہے کہ قذافی حکومت کے زیر انتظام علاقوں میں خوراک، ایندھن اور ادویات کی دستیابی خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ اس صورت حال سے مغربی لیبیا میں بے چینی پھیل سکتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اتحاد کے خلاف بھی فضا تیار ہو سکتی ہے کیونکہ لازمی ضرورت کی ان اشیاء پر پابندیوں کے لیے انہیں ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ پہلے ہی قذافی کے حامی یہ دعوٰی کر رہے ہیں کہ نیٹو کے حملوں میں بہت سے عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایک نئی پیشرفت میں لیبیا کے سرکاری ٹیلی وژن پر معمر قذافی کے بیٹے خمیس قذافی کو طرابلس میں ہونے والے ایک حملے کے زخمیوں سے ملاقات کرتے دکھایا گیا ہے، جس سے باغیوں کے خمیس کی ایک حالیہ فضائی حملے میں ہلاکت کے دعووں کی نفی ہوتی ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں